مرکزی جامعہ مسجد….از سلیقہ وڑائچ


ہمارے گاؤں کی مرکزی مسجد گاؤں میں امن اور بھائی چارے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ جس کا ایک ثبوت مسجد سے ملحقہ ہندؤں کے گھر تھے جو کہ تقسیم کے وقت بھی مسمار نہیں کئے گئے۔اورہندو برادری کے جو لوگ ہندوستان اپنے پیاروں سے جا ملے ان کے گھر نہ صرف صحیح سلامت تھے بلکہ دروازوں پر لگے تالوں کی چابیاں ہمسایوں کے پاس موجود تھیں۔ جو ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے تھے ان گھروں میں ہندوستان سے آئے مسلمانوں نے سکونت اختیار کی ہوئی تھی۔

گاؤں میں یوں تو سبھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ موجو550557724_abe3eee570_zد تھے۔ لیکن دو بڑے مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں موجود تھے۔ بعد میں جن کی تخصیص لمبی داڑھی اور اونچی شلواروں اور سبز پگڑی یا رنگ برنگے چولوں سے کی جا سکتی تھی۔

ان سب کے درمیان بھائی چارے اور یگانگت کا راز مسجد کے امام مولوی ابراہیم تھے۔ وہ اپنے زمانے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جانے مانے طبیب بھی تھے۔ دوردراز سے لوگ ان سےعلاج کروانے آتے تھے۔ اپنےبچوں کو بھی انھوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ان کے بچے مختلف محکموں میں خدمات سر انجام دینے کے بعد اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔

میرے  دادا کی مولوی صاحب سے بہت دوستی تھی۔ دادا گھر میں ٹی وی لائے تو مولوی ابراہیم ان کے ساتھ بیٹھ کر خبرنامہ سنتے  تھے۔ ضرورت کے مطابق ٹی وی کبھی مردان خانے یا دالان میں رکھا جاتا تو کبھی خواتین کے لئے برآمدے یا گھر کے اندر۔ اور کبھی صفیں بچھا دی جاتیں اور آگے مرد اور پیچھے خواتین بیٹھ کر پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھتے۔ ڈرامہ دیکھتے کسی سین پر خواتین کی سسکیوں کی آواز آتی تو مرد حضرات ہنسنے لگتے اور دادا ڈانٹتے ہو ئے کہتے "کیوں کملیاں ہوئی جاندیاں او، ڈرامہ جے”) کیوں پاگل بن ہی ہو یہ تو ڈرامہ ہے(۔

عبادات کے لئےسختی نہیں تھی لیکن مسجدوں میں صفیں بھری ہوتی تھیں۔البتہ جمعہ کی نماز نہ پڑھنے پر لعن طعن ضرور ہوتی تھی۔ بڑے تایا سست واقع ہوئے ہیں جمعہ کے دن تیاری میں دیر ہو جاتی تو وہ”شاہنی مسجد” میں اہلِ تشیع کے ساتھ نماز ادا کر لیتےکیوں کہ وہاں کچھ تاخیر کےساتھ نماز ادا کی جاتی تھی۔عورتیں بھی مسجد میں جا کر جمعہ کی نماز پڑھتی تھیں۔ پھوپھو سکول میں پڑھاتی تھیں لیکن انھوں نے قرآن کی بہت سی سورتیں حفظ کر رکھی تھیں۔ رمضان اور عبادات کی مخصوص راتوں میں موسم کی مناسبت سے گھر کی چھت پر، صحن میں یا برآمدوں میں گاؤں کی عورتیں ان کی معیت میں ساری ساری رات  عبادت کرتیں۔ ساتھ میں کھانا پینا چلتا رہتا اور عبادت بھی ہو جاتی۔

1986 میں مولوی صاحب کی وفات ہوگئی۔ اُن کے بعد  گاؤں کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد کی امامت کا مسئلہ ایک تنازعے کی صورت اختیار کر گیا۔ مسالک کے لحاظ سے دونوں اکثریتی دھڑے کسی ایک امام پر متفق نہیں ہو رہے تھے۔ کچھ عرصہ ایک امام آتا اور پھر دوسرا۔ حتیٰ کہ امام پر الزامات لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس نے فلاں آیت کی تشریح غلط کی ہے، ضعیف حدیثوں کی مدد سے ترجمہ بدل دیا ہے یا اس کا نماز پڑھنے کا طریقہ صحیح نہیں، تلاوت ٹھیک نہیں وغیرہ وغیرہ۔ جو بھی امام آتا ذلیل کر کے نکال دیا جاتا۔

پھر اونچی شلواروں اور سیاہ داڑھیوں والے لوگ تین تین دن آکر مسجدوں میں قیام کرنے لگے۔ پھوپھو کو انھوں نے ایک پرچی بھیجی کہ آپ "ثواب کے نام پر گناہ کما رہی ہیں۔ یہ سب روایتیں ہیں عبادت کا یہ طریقہ سراسر غلط ہے”۔ پھوپھو نے اپنی روش نہ چھوڑی لیکن عورتوں نے نماز کے لئے آنا بند کر دیا۔  جمعہ کی نماز کے لئے بھی کوئی خاتون مسجد کا رخ نہیں کرتی تھی۔ عبادت کے ساتھ ساتھ مل بیٹھنے کا کلچر بھی ختم ہو رہا تھا۔

 لمبی داڑھیوں والوں کا غلبہ دیکھ کر دوسرے مسلک کے لوگ بھی میدان میں آگئے۔ انھوں نے پاکپتن سے کچھ لوگوں کو بلایا اور یوں سبز پگڑی کو تقویت دینے کے لئے تواتر سے مسجد میں گیارہویں کا جلسہ کروایا جانے لگا۔ جس میں مخصوص درود ایسے پڑھا جاتا جیسے اعلانِ جنگ کیا جا رہا ہو۔ دونوں مکتبِ فکر کے لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔

 پھر مقامی انتخابات نے جیسےان تنازعات میں نئی روح پھونک دی ۔ ووٹ کی بنیاد بھی مسلک بن گیا۔ قادیانیوں کو گاؤں سے نکال دیا گیا۔ انھوں نے گاؤں سے باہر اپنی زمینوں میں گھر بنا ئے۔ یا کچھ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے۔ شاہنی مسجد کے سپیکر کو بند کروادیا گیا، ذوالجناح کے جلوس کا گاؤں میں داخلہ بند ہو گیا۔ گیارہویں کے ختم والی چیزیں کھانا حرام قرار دے دیا گیا۔

گاؤں میں  ہر فرقہ اپنی بقا کی فکر میں تھا اور اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کر رہا تھا۔ یہ مزاحمت دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اور نوبت لڑائی جھگڑوں اور مسلح مدافعت کو جا پہنچی۔ یہاں تک کہ کہ گاؤں میں اکا دکا پر اسرار قتل ہونے سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ سعودی عرب سے چھٹیاں گزارنے آئے گاؤں کے ایک آدمی نے اپنی زمیں پرسعودی کفیل کے بھیجے پیسوں کی بدولت ایک فرقے کے لئے بہت بڑی جامعہ مسجد اور مدرسہ بنا دیا۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بھی فرقہ مرکزی مسجد سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔ مرکزی جامع مسجد میں کوئی امام بھی موجود نہ تھا۔ دونوں فرقوں کے لوگ خود جا کر اذان دیتے اور جو پہلے جاتا وہی نماز پڑھواتا۔

سکولوں میں جہادِ کشمیر اور افغانستان کے شہیدوں کی عظمت بیان کی جاتی، خود جہاد سے واپس آئے لوگ وہاں کے رہنے والون کی حالتِ زار بیان کرتے اور جہاد اور جہادیوں  کے لئے چندہ مانگا جاتا ۔ ٹی وی، وی سی آر حرام قرار دے دیا گیا یہاں تک کہ بچوں کے درسی نصاب اورتفریحی رسائل و جرائد میں بھی داڑھی، نماز، جہاد اور شہادت کی ترغیب دی جاتی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم گاؤں آئے ہوئے تھے۔ایک دن عصر کے وقت  چاچو اور ان کا ایک ساتھی تیزی سے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہے تھے، جلدی جلدی ادھر اُدھر دیکھا۔ اور کچھ نظر نہ آیا تو چولہے سے جلتی ہوئی لکڑی اُٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ کے آدمی نے جس کے ہاتھ میں ہاکی تھی امی کو جلدی میں اتنا بتا یا کہ "وہ مار رہے ہیں ہمیں مسجد میں” اور چاچو کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے پہلی بار اپنے پڑھے لکھے چچا کا یہ روپ دیکھا تھا۔ میں خوف سے چیخنے لگی۔ چھوٹے چاچو کو پتا لگا تو وہ بھی اپنی بندوق کندھے پر ڈالے مسجد کو دوڑے۔ امی اور پھوپھو روکتی رہ گئیں۔ لیکن انھوں نے پھوپھو کو دھکا دیا اور باہر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔

 مسلسل لڑائی جھگڑے اور تنازعات کی وجہ سے مرکزی مسجد کو پولیس نے ہمیشہ کے لئے تا لا لگا دیا۔ چھوٹے چاچو کو کندھے میں گولی لگی ۔بڑےچاچو بھی زخمی تھے ان کو بھی گہری چوٹیں آئی تھیں۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمے درج کروائے۔ بہت عرصہ مقدمے چلتے رہے اور بالآخر فریقین میں صلح ہوگئی ۔لیکن گاؤں کا امن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ ہو گیا۔ جس کے مالی حالات اجازت دیتے تھے وہ گاؤں چھوڑ کر چلا گیا۔ پڑھے لکھے لوگ نوکریوں کی غرض سے گئے اور ہمیشہ کے لئے زمینیں بیچ ، گاؤں چھوڑ گئے۔ پرائمری ، مڈل سطح کےسکول ہیں تو سہی لیکن استاد ندارد اور کسی کو فکر بھی نہیں۔

 وہاں اب بھانت بھانت کی مسجدیں ہیں اور کئی طرح کے عقیدے۔ بھوک ہے،غربت،افلاس اور بوسیدہ عمارتیں۔ اماں کا گیتوں میں گایا،سراہے جانے والا، میلوں کے لئے سجایا جانے والا گاؤں اجڑ گیا ہے۔ اب وہاں گلیاں اتنی سنسان اور اتنی خاموشی ہے کہ قبرستان کا گماں ہوتا ہے۔ ہم تو کیا ہمارے بڑے وہاں جا کر رہنے کو تیار نہیں۔ اماں زکوٰۃ ،فطرانہ یا قربانی کا گوشت دینے جاتی ہیں اور واپس آ کر دیر تک گئے وقتوں کو یاد کرتی ہیں۔

مارشل لاء کی مونچھیں اور دس پیسے کی بُو…. از سلمان حیدر



IMG_20150929_174158میرے دوست جب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کہیں کسی مارشل لاء کا پیش خیمہ تو نہیں تو میں انہیں ان صاحب کا قصہ سنایا کرتا ہوں جنہوں نے ایک بار(Bar)میں جا کر ہتھیلی پھیلائی اور اس پر دس پیسے کی شراب طلب کی تو بار ٹینڈر نے پوچھا ’دس پیسے کی۔۔۔؟ اتنی سی شراب سے کیا ہو گا؟‘ ان صاحب نے مونچھوں پر ہاته پھیرتے ہوئے جواب دیا کے دس پیسے کی شراب تو مونچھوں پر لگا کر بُو پیدا کرنے کو چاہئیے باقی بکواس تو وہی ہے جو میں کر لیتا ہوں.

جنرل راحیل شریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اگرچہ دس پیسے کی شراب ہی سہی لیکن اس کی بو اور سول حکومت کی جانب سے پیر گھسیٹ گھسیٹ کر چلنے کی وجہ سے بہت سے تجزیہ نگاروں کے ذہن میں کئی خدشے سرسرا رہے ہیں. دبے دبے لفظوں میں ایک آدھ کالم مخالفت میں اور پیش بندی کے طور پر کئی قصیدے گزشتہ دنوں میں پڑهنے کو ملے ہیں. خدشے کے پهن پھیلاتے سانپ کی ایک آدھ پھنکار بین الاقوامی میڈیا میں بهی سنائی دے گئی ہے لیکن مقامی میڈیا اس شدت سے فوج کا ہمنوا ہے کے اگر کسی قسم کا غیر آئینی اقدام فوج کی طرف سے سامنے آیا تو اس پر سوال کرنے یا اس کی مخالفت کی توقع بے سود ہے سوائے اس کے کہ میڈیا کے پیٹ پر بهی لات پڑے. اس لات کے امکانات اگرچہ کم ہیں بلکہ کسی ستم ظریف کے مطابق خدشہ یہ ہے کے کسی طالع آزمائی کی صورت میں میڈیا مالکان صورتحال واضح ہونے تک نشریات خود ہی معطل نا کر دیں. اس ترکیب میں ایک پہلو یہ بهی ہے کے بند نہ کی جانے والی نشریات بحال کروا کے صحافی جمہوریت کا ٹھپہ لگوا لیں گے اور جمہوریت نا سہی چوتهے ستون کا بهرم ہی سہی کچه نا کچه بحال ہو جائے گا.
خوش آمدید کے بینر فوج کی آمد کے بعد لگیں تو ان کے کسی طرف ایک چهوٹا سا منجانب اور اس کے بعد ایک بڑا سا نام بڑے ہونے یا نظر آنے کی خواہشمند کسی چهوٹی سی شخصیت یا تنظیم کا ہوتا ہے لیکن جب یہ بینر پیش بینی کا نتیجہ ہوں تو عدالت مخالف بینر کی طرح لکھوانے اور لگوانے والے انجمن شہریان یا انجمن متاثرین یا ایک درد مند شہری قسم کے کسی مبہم حوالے کا استعمال کرتے ہیں. اسی طرح ابهی خبر افواہ کا لبادہ اوڑھے کسی نام یا حوالے کے بنا سینہ بہ سینہ سفر کر رہی ہے اور میں بتا رہا ہوں نا کہہ کر اس کی بائی لائن میں اپنا نام دینے کو کوئی تیار نہیں. میں نے پہلے ہی کہا تها کہنے والے اگرچہ بینروں کی رسید دکھا کر وفاداری کا ثبوت دینے والوں کی طرح بہت ہوں گے.
مارشل لاء کے اس خدشے نے پچھلے مارشل لاء کے بعد پہلی بار سر نہیں اٹهایا اگر میری یادداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو (معذرت میں اتنا سست ہوں کے گوگل استعمال کرنے کا دل بهی نہیں چاہ رہا) تین چار سال پہلے مئی کے مہینے میں اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں مارے جانے کے بعد بهی ایسی کهسر پهسر شروع ہو گئی تهی. حکومت میمو گیٹ سکینڈل کی وجہ سے بهی دباؤ میں تهی. اس کهسر پهسر کو آفیشل رنگ دینے کے لئے عوامی ورکرز پارٹی نے اسلام آباد پریس کلب میں ایک پروگرام کر ڈالا جس میں عائشہ صدیقہ صاحبہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تها کے وہ مارشل لاء کو آتا نہیں دیکھ رہیں اور یہ بهی کے اگر اب مارشل لاء آیا تو وہ ایک سخت گیر مذہبی مارشل لاء ہوگا.
2012 سے اب تک محاورے کے پل کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا اور مجهے نہیں معلوم کے عائشہ صدیقہ صاحبہ اس وقت وہی سوال دہرائے جانے پر کیا ردعمل دیں گی لیکن مارشل لاء کی دستک حکومت کے دروازے پر پھر سنائی دے رہی ہے.
آج تک پاکستان میں لگائے جانے والے ہر مارشل لاء کو لگنے سے پہلے یا بعد میں امریکی آشیرباد حاصل رہی ہے لیکن اس بار امکان ہے کے ہم اگر مارشل لاء دیکهیں گے تو اس میں چینی نیک تمنائیں بهی ساتھ ہوں گی. وجہ اس کی عالمی اور علاقائی سطح پر بڑھتا ہوا چینی اثر رسوخ ہے. نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکہ چین اور افغانستان کے حکومتی عہدیداروں کی افغانستان کی صورتحال کے بارے ملاقات اس بات کی عکاس ہے کہ نہ صرف چین خطے کے معاملات میں دلچسپی بڑهانے پر آمادہ ہے بلکہ امریکہ اس کے کردار کو تسلیم کرنے پر تیار بهی ہے.  
اس صورت میں مارشل لاء کے طویل المدت ہونے کے امکانات بهی زیادہ ہیں کیونکہ چین کے گردے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا درد بهی نہیں اٹھتا اور دائیں بازو کی وہ جماعتیں جو امریکہ مخالفت پر اپنی سیاست گرم رکھتی ہیں چین کے بارے ان کا موقف کافی مبہم مختلف یا یوں کہیے کے نرم ہے. رہیں باقی جماعتیں تو تحریک انصاف کسی بهی ایسی کوشش کو کم سے کم ابتداء میں خوش آمدید کہے گی مسلم لیگ جمہوریت بحالی وغیرہ جیسے بیکار کام میں جاں کے زیاں پر یقین نہیں رکھتی رہی پیپلز پارٹی تو سندھ کے جام میں خون حسرت مے اور پنجاب کے دامن میں وٹو صاحب نامی مشت خاک کے علاوہ کچه خاص دستیاب نہیں جسے محتسب سنبھال لیں گے.
مارشل لاء کی صورت میں سامنے آنے والی حکومت مذہبی شدت پسند عناصر کے خلاف کام معمول کے مطابق جاری رکھے گی یعنی اچھے بہت اچھے اور بہت ہی اچھے طالبان کو رتبے طاقت اور مفادات کے تناسب سے ہلا شیری دینے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور ہلکی پھلکی پٹائی کا بدرجہ انتظام کیا جاتا رہے گا. ہاں سنکیانگ میں مسلم تحریک چلانے والوں کا شمار البتہ برے بلکہ بہت ہی برے طالبان میں ہونے لگے تو کچھ تعجب نہیں. امریکہ کی خطے سے روانگی اور شام میں اس کی ناکامی کے بعد کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی کے طالبان کو خطے میں امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے مفادات کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ رہا چین تو اگر یہ آگ اس کے دامن کو نہ جلائے تو اسے کیا پڑی کے وہ میرے آپ کے غم میں ہلکان ہوتا پهرے. امریکہ کا خطے میں واضح شراکت دار ہندوستان ہے سو اس کے مفاد کو افغانستان یا خود ہندوستان میں براہ راست خطرہ موجود رہے تو اس میں ہمارا اور چین دونوں کا بهلا ہے.
پاکستانی ریاست جب تک طالبان نامی مخلوق اور ان کے ایک ایٹمی مملکت میں اقتدار میں آ جانے کے خطرے کو زندہ رکھے اس میں ریاست پر حکمران اور ثقافتی سطح پر لبرل گروہ کا چنداں نقصان نہیں. واحد فائدہ جو اس مارشل لاء سے حاصل کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ جمہوریت کی ہمارے نام پر لگی تہمت دهل جائے گی باقی تو وہی کچھ ہے جو جنرل صاحب کرتے اور ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں…

اس جنگ میں آپ کس کے ساتھ ہیں۔۔۔از سلمان حیدر


Pakistan-Army

(سلمان حیدر نے قوتِ قاہرہ یا جابرانہ قوت کی اصطلاحات بار بار استعمال کی ہیں۔ سیدھے سے لفظوں میں ان سے مراد پاک فوج ہے اور پاک فوج کےمفادات ہیں: لالاجی)

میرے کچھ دوست موجودہ صورتحال میں ریاست کی قوت قاہرہ خاص طور پر فوج کے کردار پر میری تنقید پڑھ کر مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ریاست کا کردار تبدیل ہو رہا ہے اور ریاست اپنی جابرانہ قوت کو ان طاقتوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے جنہیں اس نے خود بنایا تھا اس لیے مجھے ریاست پر تنقید ترک کر دینی چاہئیے۔ کچھ دوستوں کے خیال میں مجھے ریاست پر تنقید ترک ہی نہیں کرنی چاہئیے اس کی حمایت کرنی چاہئیے۔ ان کا کہنا ہے کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔
میرا خیال یہ ہے کہ میرے ان دوستوں کو میرا موقف معلوم نہیں یا میں انہیں سمجھا نہیں پایا۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان دوستوں میں سے اکثریت دہشت گردی یا یوں کہیے کے مذہبی دہشت گردی کو اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتی ہے جبکہ میں مذہبی دہشت گردی کو مسئلے کے ایک ظاہری پہلو کے طور پر دیکھتا ہوں۔
میری رائے میں مسئلہ مذہبی دہشت گردی سے بڑھ کر ریاست کی قوت قاہرہ کی جانب سے اپنے مفادات کے تحفظ اور بڑھوتری کے لیے غیر ریاستی یا نجی مسلح گروہوں کی سرپرستی ہے۔ یہ سرپرستی مذہبی گروہوں کو بھی حاصل رہی ہے اور اس سے نام نہاد لبرل جماعتوں کے مسلح ونگ بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔(12 مئی امید ہے کافی دوستوں کو یاد ہو گا۔) یہ سرپرستی ان مسلح جتھوں کے ذریعے ریاست سے باہر خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے اور ریاست کے اندر ریاست کی قوت قاہرہ کی طاقت پر سوال اٹھانے والوں یا مفادات کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ افغانستان ہو یا ہندوستان کراچی ہو یا فاٹا اور بلوچستان مسلح جتھے بنانا انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا تقسیم کرنا دو یا دو سے زیادہ فریقوں کی ایک ہی وقت میں پشت پناہی کرنا اور یہاں تک کے انہیں آپس میں لڑوا دینا بھی اس ساری سیاست کا حصہ ہے۔
اس مسئلے میں ایک اہم چیز یہ بھی ہے کے یہ جتھے روبوٹس پر مشتمل نہیں ہوتے ان کو چلانے والوں کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں اور انہیں جس نظریے پر بنایا جاتا ہے ان کے ایکشن میں اس کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ مثلا میں یہ نہیں سمجھتا کے فوج شیعوں یا عیسائیوں یا ہندوؤں کے خلاف ہے لیکن جب اس کے مفاد کے لیے کام کرنے والے گروہ اپنے نظریے کے تحت ان پر حملہ آور ہوتے ہیں تو فوج انہیں نظر انداز کرتی ہے بلکہ کئی بار غیر فوجی ریاستی اداروں سے بچ نکلنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ گروہ اپنے مفادات یا/اور نظریات کی بنیاد پر یہ اپنے بنانے والوں سے الجھ بھی پڑتے ہیں اور ایک بار الجھ پرنے کے باوجود ان کی صلح بھی ہو جاتی ہے۔ منگل باغ سے نیک محمد تک حالیہ مثالیں بھی بہت ہیں اگر آپ افغان جہاد میں نا جانا چاہیں تو۔
بلوچ قوم پرستوں کے خلاف مذہبی گروہ ہوں پاکستانی طالبان کے خلاف لشکر ہوں ایم کیو ایم حقیقی یا غیر حقیقی ہو سپاہ صحابہ ہو یا جماعتہ الدعوہ وغیرہ ان میں سے ہر ایک کو کسی نا کسی وقت فوج کی سرپرستی رہی ہے۔ ان میں سے کسی ایک قسم کے جتھوں کو اس وقت دبایا جا رہا ہے تو اس کے مقابل دوسرے کی سپورٹ کی جارہی ہے۔ کراچی میں متحدہ زیر عتاب ہے تو حقیقی واپس آ رہی ہے اور سپاہ صحابہ بھی موجود ہے۔ فاٹا میں متعدد لشکر بنائے لڑائے توڑے گئے ہیں اور کن کے خلاف جنہیں ان لشکروں سے پہلے بنایا اور لڑایا گیا تھا۔ بلوچستان میں مذہبی گروہ قوم پرستوں یا آزادی چاہنے والوں کے خلاف فوج کے ساتھ ہیں۔ پنجاب میں جماعتہ الدعوہ کو بھرپور سرپرستی حاصل ہے پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ ایک خاموش سمجھوتے کے تحت اپنے علاقے میں واپس آ چکے ہیں۔
مقصد ان ساری مثالوں اور گفتگو کا یہ کے فوج کے اس وقت اپنے وقتی مفادات کے تحت ایک خاص قسم کے جتھوں کے خلاف ہو جانے کو اس مسئلے کا حل نہیں سمجھا جا سکتا۔ مسئلہ حل تب ہو گا جب فوج اپنے مفادات کے تحت مسلح اور غیر مسلح جماعتیں اور جتھے بنانا اور انہیں استعمال کرنا چھوڑ دے گی۔ ورنہ کل ایک اور دشمن ایک اور وجہ ایک اور جنگ سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔
مجھ سے کل ایک دوست نے پوچھا کے میری سمجھ میں نہیں آتا کے آپ فوج کے ساتھ ہیں یا طالبان کے تو میں نے اسے یہی جواب دیا کے اس جنگ اور آپریشن میں کام ہی یہ کیا گیا ہے کہ ایسا گھڑمس مچاؤ کہ اس لڑائی کی صرف دو سائیڈیں نظر آئیں اور اس کے بعد لوگوں کو ایک سائیڈ منتخب کرنے پر مجبور کر دو۔ ایسا نہیں ہے اس جنگ میں مارے جانے والوں کی اکثریت کسی طرف نہیں ہیں۔ میں انکی طرف ہوں۔

سفید ہاتھی کی موجیں …. از نعیم حجازی


بادشاہتوں  کے  زمانے  میں  ہاتھیوں  کی  بڑی  قدر  کی  جاتی  تھی۔  ہاتھی  رکھنا  شان وشوکت  کی  علامت  سمجھی  جاتی  تھی۔  انہی  دنوں  سفید  ہاتھی  کی  اصطلاح  نے  جنم  لیا۔  سفید  ہاتھی  سے  مراد  کوئی  ایسی  چیز  لی  جاتی  ہے  جس  کی  دیکھ بھال  پر  اچھا  خاصا  خرچ  آتا  ہو  لیکن  عملی  طور  پر  ا س  چیز  کی  کوئی  افادیت  نہ  ہو۔  مملکت  پاکستانیہ  اوّل  روز  سے  ہی  ایسا  ایک  سفید  ہاتھی  پال  رہی  ہے۔  ابتدائی  دور  ہی  سے  ملکی  مفاد  اور  فوجی  مفاد  کچھ  ایسا  گڈ مڈ  ہوا  کہ  یہ  تفریق  ہی  مٹ  گئی۔  دور  حاضر  میں  قومی  مفاد  اور  فوجی  مفاد  کا  ایک  ہی  مفہوم  سمجھا  جاتا  ہے۔  ملک  ابھی  قائم  بھی  نہیں  ہوا  تھا  کہ  فوجی  دستوں  نے  کشمیر  کا  محاذ  کھول  دیا  اور  اسلحے  کے  علاوہ  بہت  سا  قومی  سرمایہ  بھی  اس  دلدل  میں  ضائع  ہوا۔ملک  کے  پہلے  بجٹ  میں  فوجی  اخراجات  کو  تمام تر   اخراجات  میں سے   ستر  فیصد  حصہ  ملا۔مارچ  1951 ء  میں  وزیر خزانہ  غلام  محمد  نے  بجٹ  پیش  کرتے  ہوئے  کہا  تھا  کہ  دفاعی  اخراجات  ہمارے  ملک  کے  رقبے  اور  استعداد  کے  لحاظ  سے  بہت  زیادہ  ہیں۔ بعد ازاں  بھارت  سے  لڑنے  کیلئے  فوج  نے  امریکہ  کے  آگے  کشکول  لہرایا  اور  65ء  کی  جنگ  تک  خوب  ڈالر  کمائے۔  اس  کے  بعد  کبھی  چین،  تو  کبھی  روس  اور  آخر کار  عرب  ممالک  نے  ہماری  بہادر  افواج  کی  سرپرستی  کا  ٹھیکا  اٹھایا۔

ستم  یہ  ہے  کہ  فوج  ملکی  خزانے  کا  ایک  بڑا  حصہ  ہڑپ  بھی  کر  لیتی  ہے  اور  اس  لوٹ مار  کے  خلاف  تنقید  بھی  برداشت  نہیں  کرتی۔ اردو  اخبارات  سے  تو  خیر  کیا  شکوہ  کرنا،  انگریزی  اخبارات  بھی  ان  معاملات  میں  پھونک  پھونک  کر  قدم  رکھتے  ہیں،  کہ  آخر  اپنی  جان  تو  سب  کو  پیاری  ہوتی  ہے۔ ڈاکٹر  عائشہ  صدیقہ  نے  2007ء  میں  فوجی  اداروں  کو  ایک  کاروبار  کا  نام  دیا  تھا  کہ  جس  طرح  فوج  اپنے  معاشی  مفادات  کا  خیال  رکھتی  ہے،  اس  طرح  کے  اقدام  سرکاری  ادارے  نہیں  بلکہ  کاروبار  والے  اٹھاتے  ہیں۔  ڈاکٹر  عائشہ  کی  کتاب  تو  اب  پاکستان  میں  دستیاب  نہیں  لیکن  اس  کے  خلاف  باز گشت  ابھی  تک  فوجی  رسائل  میں  موجود  ہے۔ اس  کتاب  کی  تصنیف  کے  بعد  فوج  نے  اپنے  اعمال  سے  توبہ  کرنے  کی

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب کا سرورق۔ یہ کتاب ہمارے جرنیلوں کو سخت نا پسند ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب کا سرورق۔ یہ کتاب ہمارے جرنیلوں کو سخت نا پسند ہے۔

  بجائے  کام  جاری  رکھا۔  پاکستان  کی  بری،  بحری  اور  فضائی  افواج  کے  کاروبار  پر  ایک   طائرانہ  نگاہ  ڈالتے  ہیں۔

سنہ  2001ء  میں  مشرف  صاحب  نے  فوجیوں  کی  پنشن  کو  فوجی  بجٹ  کی  بجائے  سویلین  بجٹ  میں  شمار  کرنے  کی  ہدایت  کی۔  سال  2010ء   میں  تیس  لاکھ  سابقہ  فوجی  ملازموں  کی  پنشن  کی  مد  میں  چھہتر(76)  ارب  روپے  مختص  کئے  گئے۔اسکے  علاوہ  فوج  ترقیاتی  کاموں  کیلئے  مختص  شدہ  فنڈ  سے  بھی  پیسے  حاصل  کرتی  ہے۔ہمارے  سالانہ  بجٹ  کا  بیشتر  حصہ  بیرونی  قرض  ادا  کرنے  پر  صرف  ہوتا  ہے  اور  یہ  قرض  بھی  دراصل  فوجی  ضروریات  کو  پورا  کرنے  کیلئے  ہی  تو  لیا  جاتا  رہا  ہے۔

رواں  سال  فروری  کے  مہینے  میں  لاہور  ہائی  کورٹ  نے  فوج  سے  پوچھا  کہ  فورٹریس  سٹیڈیم  کے  علاقے  میں  تعمیر  کیا  جانے  والا  شاپنگ  سینٹر  قانون  کی  خلاف ورزی  کرتا  ہے  یا  نہیں، کیونکہ  یہ  زمین  وفاقی  حکومت  کی  طرف  سے  فوج  کو  دفاعی  ضروریات  یا  عمارات  بنانے  کیلئے  دی  گئی  تھی  لیکن   فوج  نے  اس  زمین  کو  نجی  کمپنی  کے  ہاتھ  فروخت  کر  دیا۔ فوج  کی  جانب  سے  جواب  داخل  کروایا  گیا  کہ  وہ  زمین  ابھی  تک  ’دفاعی  اور  عسکری   ضروریات‘  کے  ضمن  میں  استعمال  کی  جا  رہی  ہے۔  شاپنگ  سینٹر  کے  ذریعے  کون  کون  سے  دفاعی  مقاصد  پورے  کیے  جا  سکتے  ہیں،  اس  امر  پر  نیشنل  ڈیفنس  یونیورسٹی  میں  تحقیق  جاری  ہے۔

پاک  بحریہ  نے  1995ء  میں  کیپٹل  ڈویلپمنٹ  اتھارٹی(CDA)  سے  اپنے  افسران  کی  رہائش گاہیں  قائم  کرنے  کیلئے  اونے  پونے  داموں  زمین  حاصل  کی۔ اب  اس  زمین  پر  قوانین  کی  خلاف ورزی  کرتے  ہوئے  نیول  ہاؤسنگ  سوسائٹی  تعمیر  کی  جا  چکی  ہے  جہاں  پلاٹ  عام  شہریوں  کو  مہنگے  داموں  بیچے  جا  چکے  ہیں۔پاکستانی  سمندروں  کی  محافظ  بحریہ  کے  اس  اقدام  کے  باعث  سرکاری  خزانے  کو  کئی  کروڑ  روپے  کا  نقصان  پہنچا  ہے۔ اسلام آباد  میں  موجود  نیول  ہیڈ کوارٹر  براہ راست  شاپنگ  پلازے  چلا  رہا  ہے  لیکن  کم ازکم  ہمارے  سمندر  تو  دشمن  کی  یلغار  سے  محفوظ  ہیں۔

اکتوبر  2014 ء  میں  آڈیٹر  جنرل  پاکستان  نے  انکشاف  کیا  کہ  پچھلے  مالی  سال  میں  پاکستان  کے  خزانے  کو  فوجی  اداروں  کی  کرتوت  کے  باعث  ایک سو تہتر (173)  ارب  روپے  کا  نقصان  پہنچا۔  موازنے  کی  رو  سے  اتنی  رقم  میں  پاکستان  کے  ہر  بڑے  شہر  میں  میٹرو  بس  بنائی  جا  سکتی  ہے۔ پچھلے  بیس  سال  میں  قومی  اسمبلی  کی  پبلک  اکاؤنٹس  کمیٹی  نے  فوجی  اداروں  کی  مالی  بے ضابطگیوں  پر  تین  ہزار  سے  زائد  نوٹس  جاری  کیے  جن  میں  سے  صرف  ڈیڑھ  سو  کا  جواب  میسر  آیا۔

آڈیٹر  جنرل  نے  پاک  فضائیہ  کی  کراچی  میں  واقع  فیصل  بیس  کے  سربراہ  سے  درخواست  کی  کہ  سرکاری  جہاز وں  C-130  پر  فوجی  اداروں  کے  کارکنان  اور  انکے  خاندانوں  کو  سوار  کر  کے  ہر  ہفتے  اسلام آباد  لے  جانے  کا  سلسلہ  بند  کیا  جائے  کیونکہ  اس  وجہ  سے  رواں  سال   قومی  خزانے  کو  چوالیس(44)  کروڑ  روپے  کا  نقصان  اٹھانا  پڑا  ہے۔  اسی  ضمن  میں  یہ  امر  قابل ذکر  ہے  کہ  فوجی  تعمیراتی  ادارے    FWO   کو  نجی  تعمیراتی  اداروں  کے  برعکس  ٹیکس  چھوٹ  حاصل  ہے۔

کراچی  کے  علاقے  قیوم آباد  میں  ڈیفنس  ہاؤسنگ  اتھارٹی  کے  ملازم  مقامی  لوگوں  کو  وہاں  موجود  قدیم  قبرستان  میں  مردے  دفن  کرنے  سے  روک  رہے  ہیں  کیونکہ  اس  جگہ  کو  ہتھیانے  کا  منصوبہ  بنایا  جا  چکا  ہے۔  کراچی  ہی  کے  علاقے  غازی  کریک  میں  ڈیفنس  فیز  سیون(7)  اور  ایٹ(8)  سے  ملحقہ  علاقہ  پر  قبضہ  جاری  ہے  اور  اگر  یہ  منصوبہ  جاری  رہے  تو  اس  کریک  کے  اردگرد  490  ایکڑ  رقبے  پر  پھیلے  چمرنگ(Mangroves)  کا  صفایا  ہو  جائے  گا۔  لاہور  میں  واقع  ڈیفنس  ہاؤسنگ  اتھارٹی  اب  گوجرانوالہ،  ملتان  اور  بہاولپور  میں  اپنی  شاخیں  قائم  کر  رہی  ہے۔  

 فوج  کے  پچھلے  کمانڈر  کے  برادر  محترم  پراپرٹی  کے  کاروبار  میں  ملوث  تھے  اور  آئی  ایس  آئی  کے  نئے  سربراہ  کے  بھائی  کو  پی آئی اے  میں  کروڑوں  روپے  ماہانہ  کی  تنخواہ  پر  تقرر  کیا  گیا  ہے۔  برطانوی  راج  کے  دور  میں  سرکار  فوجیوں  میں  زمین  بانٹتی  تھی  تاکہ  انکی  اور  انکے  خاندانوں  کی  وفاداری  حاصل  کی  جائے۔ سامراجی  دور  میں  قانون  بنا  کہ  حکومت  ملک  کے  کسی  بھی  علاقے  کو  ’قومی  مفاد‘  کے  نام  پر  شہریوں  سے  خالی  کرا  سکتی  ہے۔  یہ  قانون  ابھی  تک  ہمارے  ملک  میں  رائج   ہے۔

پرویز مشرف کے دور میں فوج کو براہِ راست حکومت کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اب فوج براہِ راست حکومت میں آنے سے کتراتی ہے۔ مگر اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتی اور حکومتوں کو ڈرانے کے لئے عمران خان اور طاہر القادری جیسے تماشے لگائے رکھتی ہے۔ زرداری کے دور میں دفاعِ پاکستان کونسل ہوا کرتی تھی۔

پرویز مشرف کے دور میں فوج کو براہِ راست حکومت کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اب فوج براہِ راست حکومت میں آنے سے کتراتی ہے۔ مگر اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتی اور حکومتوں کو ڈرانے کے لئے عمران خان اور طاہر القادری جیسے تماشے لگائے رکھتی ہے۔ زرداری کے دور میں دفاعِ پاکستان کونسل ہوا کرتی تھی۔

ایوب  خان  کے  دور  میں  فوجی  افسران  کو  زمین  بانٹنے  کا  سلسلہ  شروع  ہوا۔پہلے  پہل  اس  ضمن  میں  سرحدی  علاقوں  کے  قریب  زمین  حاضر  سروس  یا  ریٹائر  فوجی  اہلکاروں  کے  نام  لگائی  جاتی  تھی  تاکہ  بھارت  کی  جانب  سے  جارحیت  کی  شکل  میں  ابتدائی  مدافعت  کی  جا  سکے۔اس  دور  میں  ایک  مارشل  لاء  حکم  کے  تحت  سرکاری  ملازمین  پر  ایک  سو  ایکڑ  سے  زیادہ  زمین  رکھنے  پر  پابندی  عائد  کر  دی  گئی  البتہ  فوج  کے  ملازمین  پر  یہ  حکم  لاگو  نہیں  تھا۔لیہّ  کے  علاقے  چوبارہ  میں  بیس  ہزار  ایکڑ  زمین،  ایک  سو  چھیالیس (146)  روپے  فی  ایکڑ  کے  حساب  سے   فوجی  ملازمین  کو  سنہ 1982ء  میں  عطا  کی  گئی۔  اسی  تحصیل  کے  علاقے  رکھ  جدید  میں  چالیس  ہزار  ایکڑ  زمین  ملتے  جلتے   داموں  2007 ء  میں   فوجی  ملازمین  کے  نام  کی  گئی۔ پنجاب  ریونیو  بورڈ  کی  دستاویزات  کے  مطابق  1990ء  سے  2010ء  کے  دوران  صوبے  کے  تین  اضلاع (اوکاڑہ،  بہاولپور  اور  خانیوال)  میں  ایک  لاکھ  ایکڑ  زمین  فوج  کے  حوالے  کی  گئی۔ راجن پور  میں  فرید  ایئر  بیس  سے  ملحقہ  335  ایکڑ  زمین  پاک  فضائیہ  نے  ہتھیا  رکھی  ہے  اور  اس  زمین  پر  استعمال  کیا  جانے  والا  پانی  فتح پور  نہر  سے  چرایا  جاتا  ہے۔

پنجاب  حکومت  نے  سنہ 1913ء  میں  نو  مختلف  اضلاع(ملتان، خانیوال، جھنگ، سرگودھا، پا ک پتن، ساہیوال، وہاڑی، فیصل آباد  اور  لاہور)  میں  اڑسٹھ(68)  ہزار  ایکڑ  رقبہ  مختلف  سرکاری  محکموں  کو  کرائے  پر  دیا  جس  میں  سے  چالیس  فیصد  رقبہ  فوج  کے  پاس  تھا۔سنہ 1943ء  کے  بعد  سے  پنجاب  حکومت  کو  اس  زمین  کی  مد  میں  ایک  پیسہ  بھی  کرایہ  نہیں  ملا۔ 

 پاکستان  ریلوے  سے  فوج  کی  یاد اللہ پرانی  ہے۔ سنہ 1978ء  میں  کراچی  بندرگاہ  پر  فوج  کو  مقامی  انتظامیہ  کی  مدد کیلئے  تعینات  کیا  گیا  لیکن  کچھ  ماہ  بعد  یہ  بندوبست  ختم  ہو  گیا۔  اس  دوران  فوج  نے  نیشنل  لاجسٹک  سیل (NLC)  کی  بنیاد  رکھی۔  اس  کے  بعد  سے  ملک  میں  سامان  کی  ترسیل  کا  کام  ریلوے  کی  بجائے  فوج  کے  ادارے  نے  شروع  کر  دیا  اور  بہت  جلد  ریلوے  کا  دیوالیہ  نکل  گیا۔ صرف  مالیاتی  سطح  پر  ہی  نہیں،  فوجی  اداروں  نے  ریلوے  کی  کئی  ہزار  ایکڑ  زمین  بھی  ہتھیا  لی،  جس  میں  سے  ایک  ہزار  ایکڑ  پاک  فوج  جبکہ  پانچ  سو  ایکڑ  زمین  رینجرز  سے  سپریم  کورٹ  کے  حکم  کے  بعد  واپس  لی  گئی۔  البتہ  اب  بھی  کم از کم  دو  ہزار  ایکڑ  زمین  ان  اداروں  کے  قبضے  میں  ہے۔  کچھ  عرصہ  قبل  NLC  نے  ریلوے  کی  نجکاری  کیلئے  مہم  شروع  کی  اور  اس  سلسلے  میں  کوریا  سے  کچھ  سامان  بھی  منگوا  لیا  لیکن  ریلوے  ملازمین  کی  مزاحمت  کے  باعث  ابھی  تک  یہ  سلسلہ  شروع  نہیں  ہو  سکا۔  سنہ  2012 ء  میں  قومی  اسمبلی  کی  خصوص  کمیٹی  نے  لاہور  میں  ریلوے  کی  ایک سو چالیس  ایکڑ  زمین  پر  غیر قانونی  طور  پر   قائم شدہ  گالف  کلب  کے  مسئلے  میں  تین  جرنیلوں  کو  مورد  الزام  ٹھہرایا۔  کمیٹی  کی  تحقیقات  کے  مطابق  اس  عمل  سے  ملکی  خزانے  کو  پچیس  ارب  روپے  کا  نقصان  پہنچا۔     

فوج  کے  ماتحت  ایک  ادارہ  رینجرز  نام  کا  بھی  ہے  جس  کی  بے ظابطگیاں  اور  کرپشن  کی  داستانیں  عوام  تک  بہت  کم  پہنچتی  ہیں۔ رینجرز  کی  بنیادی  ذمہ داری  پاکستان  اور  بھارت  کے  مابین  عالمی  سرحد  کی  نگرانی  کرنا  ہے۔ تحصیل  سیالکوٹ  میں  کسی  کسان  یا  زمیندار  کو  نالوں  کے  کناروں  سے  مٹی  چاہئے  تو  ہر  ٹرالی  پر  سو  روپیہ  ’کرایہ‘  رینجر ز  کو  دینا  ہوتا  ہے۔ شیخوپورہ  میں  رینجرز  اہلکار  مٹی  کی  ایک  ٹرالی  چار  سو  روپے  کے  عوض  بیچتے  ہیں۔بہاول نگر، شیخوپورہ  اور  سیالکوٹ  میں  شکار  کیلئے  رینجرز  کی  گاڑیاں  استعمال  ہوتی  ہیں  اور  شکار  پارٹیوں  کا  بندوبست  بھی  رینجرز  اہلکار  کرتے  ہیں۔ شکر گڑھ  میں  رینجرز  اہلکار  ایک  شادی  ہال  چلا  رہے  ہیں۔ رحیم یار  خان  میں  ان  شہزادوں  نے  شاپنگ  مال (جسکا  نام  روہی  مارٹ  ہے)  کھول  رکھا  ہے۔ 

بہاول نگر  اور  بہت  سے  سرحدی  علاقوں  میں  رینجرز  کئی  سال  تک  پیپسی  جیسا  ایک  مشروب  بیچتے  رہے  اور  کچھ  عرصہ  قبل  اس  کے  خلاف  کارروائی  ہوئی۔ بدین  اور  ٹھٹھہ  کے  مچھیروں  پر  رینجرز  نے  اپنی   مرضی  کے  ٹھیکے دار  مسلط  کرنے  کی  کوشش  کی  جسکے  خلاف  مقامی  آبادی  میں  احتجاجی  تحریک  کا  آغاز  ہوا۔      

ظلم  کی  انتہا  ہے  کہ  فوجی  بھائی  اور  انکے  خاندان  تو  چھٹیاں  بھی  سرکاری  خرچ  پر  فوج  کے  میس  اور  گیسٹ ہاؤسوں  میں  گزارتے  ہیں  اور  ریٹائر شدہ  فوجیوں  کی  تنخواہ  سویلین  بجٹ  سے  کٹتی  ہے۔  تیرے  دیوانے  جائیں  تو  کدھر  جائیں؟  فوجی  اہلکاروں  سے  پوچھا  جائے  تو  فوری  طور  پر  قومی  مفاد  کی  لال  جھنڈی  لہرانا  شروع  ہو  جاتے  ہیں،  کیونکہ  آخرکار  قوم  کا  مفاد  فوج  کے  مفاد  میں  ہی  تو  پنہاں  ہے۔  پاکستان  کی  ساٹھ  فیصد  آبادی  شدید  غربت  میں  زندگی  گزار  رہی  ہے،  اسّی  فیصد  آبادی  کو  صاف  پانی  میسر  نہیں،  کروڑوں  بچے  تعلیم  کی  نعمت  سے  محروم  ہیں،  پبلک  ٹرانسپورٹ  نامی  کوئی  چیز  ہمارے  ہاں  موجود  نہیں  لیکن  فوج  کے  پاس  اعلیٰ  ترین  ہتھیار  تو  ہیں،  ایٹم  بم  تو  ہے،  میزائل  تو  موجود  ہیں،  تنخواہ  تو  مل   رہی  ہے۔ استاد  دامن  نے  یونہی  تو  نہیں  کہا  کہ  پاکستان  وچ  موجاں  ای  موجاں،  جدھر  ویکھو  فوجاں  ای  فوجاں۔

کچھ  دوستوں  کو  اعتراض  ہے  کہ  سیاست دان  فوج  سے  زیادہ  کرپٹ  ہیں  اور  یہ  کہ  دیگر  ممالک  جیسے  امریکہ  یا  برطانیہ  یا  چین  میں  بھی  فوج  کے  اخراجات  بہت  زیادہ  ہوتے  ہیں۔  لیکن  عرض  ہے  کہ  امریکہ  یا  برطانیہ  یا  چین  میں  افواج  سیاست دانوں  کی  کنپٹیوں  پر  ہمہ وقت  بندوق  تانے  موجود  نہیں  ہوتیں اور  نہ  ہی  وہاں  جرنیل  ریٹائر  ہونے  کے  بعد  ملکی  مفاد  کے  مامے  بن  کر  سرعت  سے  ٹی وی  سکرینوں  پر  نمودار  ہوتے  ہیں۔ چین  یا  امریکہ  کے  جرنیلوں  نے  پچھلے  ستر  سالوں  میں  اپنی  حکومتوں  کے  خلاف  گیارہ  تختہ  الٹنے  کی  سازشوں  میں  حصہ  نہیں  لیا  اور  اگر  وہاں  فوج  کے  اخراجات  پر  خرچ  ہوتا  ہے  تو  ان  ممالک  کی  معیشت  اس  قابل  ہے۔  ہماری  معیشت  کے  بارے  میں  مثل  مشہور  ہے  کہ  ننگی  کیا  نہائے  گی  اور  کیا  نچوڑے  گی۔

 رہی  بات  کرپشن  کی  تو  سیاست دانوں  کو  تو  سنہ 58ء  سے  کرپشن  کے  الزامات  میں  ملوث  کر  کے  سیاست  سے  دور  کرنے  کی  کوششیں  کی  جاتی  رہی  ہیں،  آج  تک  کوئی  حاضر  سرو س  تو  کیا،  ریٹائر  جرنیل  بھی  کرپشن  کے  الزام  میں  جیل  گیا  ہے؟  مہران  بنک  سکینڈل  میں  عدالت  اپنا  فیصلہ  سنا  چکی  ہے،  کیا  ان  ریٹائر  جرنیلوں  کو  جیل  بھیجا  جا  سکتا  ہے؟  ایف  سی  کے  سربراہ  کو  عدالت  نے  طلب  کیا  تھا  تو  عارضہ ء  دل  کا  بہانہ  بنا  کر  رخصت  لے  لی  گئی  تھی،  ان  کے  خلاف  انصاف  اسلام آباد  کے  محلہ  کنٹینر پورہ  میں  کیوں  نہیں  مانگا  جاتا؟  تبدیلی  کے  متوالے  سیاسی  کرپشن  کے  ہی  درپے  کیوں  ہیں؟  فوج  کی  بے پناہ  کرپشن  کے  بارے  میں  تحریک  انصاف  کے  کسی  محلے  لیول  کے  کارکن  کی  جانب  سے  بھی  کبھی  بیان  جاری  نہیں  ہوا۔

بھورو بھیل کی کہانی، اعجاز منگی کی زبانی


1378218_655950074429621_443105088_n

بھورو بھیل کی لاش

سندھی دانشور اعجاز منگی کی تحریرسے اک اقتباس
یہ تحریر نہی بلکہ نوحہ ھے
دھرتی کے بیٹوں کا
دھرتی ماں کی اجڑی کوکھ کانوحہ
اعجاز منگی کی زبانی بھورو بھیل کی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خورشید قائم خانی نے ایک کتاب لکھی تھی ’’بھٹکتی ہوئی نسلیں‘‘۔
ان بھٹکتی ہوئی نسلوں سے ہی تعلق تھا اس بھورے بھیل کا جس کے جسد خاکی کا بھٹکنا سندھی میڈیا کا بہت بڑا اشو بن گیا ہے۔وہ شخص جو نہ ہندو تھا اور نہ مسلمان ۔جو نہ سکھ تھا اور نہ عیسائی۔ جو نہ بدھ تھا اور نہ جین۔ اس شخص کو جب مرنے کے بعدمیرپور خاص کے مشہور شہر پنگریو کی سرزمین میں دفن کیا گیا تو بقول اقبال ’’مذہب کی حرارت ‘‘ رکھنے والے چند لوگوں نے ان کی لاش کو قبر سے نکال کر کڑی دھوپ میں پھینک دیا۔اور اس وقت نہ تو میرپور خاص کا وہ شاعر زندہ تھا جو یہ کہتا کہ ’’اسے میرے دل میں دفن کرو‘‘ اور نہ ہی وہ خورشید قائم خانی ہی اس دنیا میں موجود ہے جو اس کی لاش کو لے آتا اواسے اپنے گھر کے آنگن میں اس کی قبر بنالیتا اور جب چیت کا چاند اپنی کرنیں بکھیر دیتا اس دھرتی پر تب وہ خورشید قائم خانی اپنی مخصوص کیفیت میں بھورو بھیل سے مخاطب ہوکر کہتا کہ’’اے خانہ بدوش! بتاؤ کہ خرابی کہاں سے شروع ہوئی؟‘‘

ایک حادثے کا شکار ہوکر مرجانے والا بھورو بھیل جس طرح اس جدید دور میں اپنی قدیم مظلومیت کی علامت بننے کی کوشش کر رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ’’تاریخ پچھتاتی بھی ہے‘‘ اور تاریخ کو پچھتانا بھی چاہئیے!! تاریخ کو ان انسانوں کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے کٹہڑے میں آنا پڑے گا اور اسے بتانا پڑے گا کہ ’’ان لوگوں کاکوئی مذہب نہیں۔ تاریخ کے خط استوی پر اپنی منزل سے بھٹک جانے والے ان لوگوں کا کوئی دیس نہیں۔ اپنے دیس میں پردیسی جیسی زندگی گذارنے والے ان لوگوں کو ایک ملک تو کیا ایک مکان بھی نہیں ہے۔ وہ جہاں کھلی جگہ دیکھتے ہیں وہاں لکڑیاں اور گھاس پھونس جمع کرکے اپنی کٹیائیں بنا لیتے ہیں اور جب کوئی ان سے کہتا ہے کہ ’’یہاں سے دفع ہو جاؤ‘‘ تو وہ کوئی سوال پوچھے بغیر اپنے گدھوں پر وہی لکڑیاں اور گھانس پھونس لاد کر پھر کسی جگہ کے جانب چل پڑتے ہیں اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں دکھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی آنکھوں سے ایک آنسو تک نہیں گرتا۔ کیوں کہ یہ لوگ صدیوں سے یہی زندگی جیتے آ رہے ہیں۔ وہ ہندؤں کی طرح اپنے جنازے نہیں جلاتے۔ وہ دفن کرتے ہیں۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اب انہیں صرف جینے کے لیے جگہ کی تنگی نہیں بلکہ مرنے کے لیے دفن ہونے کو دو گز زمین نہیں ملتی۔ یہ لوگ جو کبھی کراچی سے لیکر کشمیر تک ایک بہت بڑی سرزمین کے مالک تھے۔ اب انہیں دھرتی کا کوئی ٹکڑا نہیں ملتا جہاں وہ اپنے دل کے ٹکڑوں کو دفن کر آئیں۔ بھورو بھیل اس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ جس قبیلے کو عام لوگ خانہ بدوش کہتے ہیں اور جنہوں نے انگریزی کے دو الفاظ پڑھے ہیں وہ انہیں رومانوی انداز سے ’’جپسی‘‘ بلاتے ہیں۔ بھورو بھیل بھی جپسی تھا۔ بادامی آنکھوں اور تانبے جیسی رنگت رکھنے والے بھورو بھیل کی کہانی اگر ایک حقیقت نہیں بلکہ ایک ناٹک ہوتی تو تاریخ کی روح سفید لباس پہن کر بھورو بھیل کی مذار پر ضرور جاتی اور اس سے مخاطب ہوکر ضرور کہتی کہ ’’میرے بیٹے! مرنے کےبعد تاریخ کے اس بھاری بھرکم صلیب کا بوجھ تم کو اٹھانا تھا اور تم کو بتانا تھا کہ تم ابھی تک خانہ بدوش ہو‘‘
ہاں! وہ خانہ بدوش تھا۔ زندگی میں تو خانہ بدوشی بہت کرتے ہیں مگر اس کے مقدر میں مرنے کے بعد بھی خانہ بدوشی ہی آئی۔ اور اس کے اس المیے کا اظہار کسی نیوز چینل نے نہیں کیا۔آج کل کی حکومتیں اپنے ضمیر کا کم اور میڈیا کا زیادہ سنتی ہیں۔ مگر قومی میڈیا میں اس مظلوم خانہ بدوش کی داستان درد نشر نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ اس ملک کی اکثریت کوکبھی تو معلوم ہوگا کہ ’’ایک تھا بھورو بھیل‘‘ درواڑ نسل کا وہ انسان جس کی بھوری آنکھوں میں ایک فنکار بننے کا خواب تھا۔اسے یقین تھا کہ وہ اپنے فن سے ملک کی میڈیا پر چھا جائے گا۔اس نے اپنے قبیلے بچپن سے یہی سنا تھا کہ وہ خوبصورت ہے۔ اسے اپنے حسن اور اپنی صلاحیتوں پر ناز تھا۔ مگر کسی چینل نے اسے فن کے مظاہرے کا موقع نہیں دیا۔ وہ مقامی پروگراموں میں اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا اوراس کو اتنا کچھ ملتا جتنا ایک بھیل اور باگڑی کو خیرات میں ملا کرتا ہے۔ مگر وہ زیادہ رقم کا تقاضہ نہیں کرتا اور مسکرا کر دعائیں دیتا ہوا چل پڑتا۔ زندگی کے اس سفر میں وہ کسی منزل پر نہیں پہنچا اور حادثے کا شکار ہوگیا۔ اور مرگیا!! اس کے موت پر میڈیا ماں افسوس کے اظہار والے بیانات شایع نہیں ہوئے۔ کوئی ریفرنس نہیں ہوا۔ وہ ایسے چلا گیا جیسے بنجارے جاتے ہیں۔ بغیر بتائے۔ چپ چاپ اور خاموش!!
اور مرنے کے بعد ان کے ورثاء نے اسے انہیں کپڑوں کے ساتھ ایک رلی میں لپیٹ کر مقامی قبرستان میں دفن کیا مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ دور تبدیل ہوچکا ہے اور بھورو بھیل کی تدفین ایک تنازعے کی صورت اختیار کر گئی اور اسے گاؤں کے کچھ لوگوں نے ان کی قبر کھود کر اسے کے جسد خاکی کو باہر نکال کر دھوپ میں پھینک دیا۔ اس طرح جن لوگوں سے دھرتی پر جینے کا حق چھینا گیا ان لوگوں سے اب مرنے کے بعد دفن دھرتی میں دفن ہونے کا حق بھی چھینا گیا تو وہ لوگ کہاں جائیں گے؟

اس سوال کا جواب سمۂ کو بھی دینا ہوگا اور اس سرکار کو بھی جس نے ان انسانوں کو اقلیت کی سیاست چمکانے والے ان ہندؤں کے دفتر میں داخل کردیا ہے جو انہیں اپنے مندروں میں آنے نہیں دیتے۔ جو انہیں اپنے شمشان گھاٹوں میں مردے جلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔وہ کہاں جائیں؟ اگر وہ دولت اور دماغ کے حوالے سے غریں نہ ہوتے تو وہ اپنے قبرستان بناتے ۔ مگر جنہیں جینے کے لیے بستیاں نہیں وہ قبرستان کیا بنائیں گے!!
وہ جو خانہ بدوش ہیں۔ بنجارے ہیں۔ جن کی زندگی نے ہمیشہ پیٹھ پر ڈیرے ڈالے ہیں۔ مگر مرجانے کے بعد تو انسان اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس حوالے سے زمانے کا ضمیر بتائے کہ موت کے بعد ایک خانہ بدوش کہاں جائے!!!!؟؟؟
وہ خانہ بدوش جن کے آباؤ اجداد نے موہن جو داڑو جیسے حیرت انگیز شہر میں دھات کے بھالے بنانے کے بجائے مٹی کے وہ کھلونے بنائے جن کی مالیت آج عالمی منڈی میں کروڑوں ڈالروں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ مگر آج ان انسانوں کو مرجانے کے بعد مٹی سے مٹی ہونے کا حق بھی میسر نہیں اور اس المیہ پر کوئی اداس نہیں۔ نہ انسانی حقوق کے تحفظ کے داعی اور نہ اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے! نہ حزب اقتدار اور نہ حزب اختلاف!!
اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ بھورو بھیل کے ورثاء بھی اس زیادتی کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھ رہے مگر ادب اور فن سے پیوستہ دلوں میں ایسے المیاتی واقعات کے حوالے سے یہ احساسات ضرور جنم لیتے ہیں جن کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اے آسمانوں
نیلے جہانوں
جائیں کہاں یہ
بھٹکتے اور بے گھر۔۔۔۔!!‘

مقدمہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ از خانزادہ


Raymond Davis

ریمنڈ ڈیوس

یہ بات اتنی پُرانی نہیں ہے۔

ریمنڈ ڈیویس نے تین پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور "انگریزی قانون” کے تحت سفارتکاروں کو ملنے والی رعایت کا فائدہ اُٹھانا چاہا تو قوم آگ بگولہ ہوگئی۔ بعد میں جب اُسے قرآن کے بتائے ہوئے شرعی قانون کے تحت خُون بہا کی ادائیگی کے بعد مُعاف کرکے خُصوصی طیارے میں اپنے مُلک پہنچایا گیا تو قوم اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئی۔

لودھراں کے بیٹی کو مزارِ قائد کے احاطے میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور مظلوم لڑکی نے کمال جُرات کا مظاہرہ کرکے خاموش رہنے کے بجائے اپنے لئے صدائے انصاف بلند کی تو "انگریزی قانون” کے تحت اُس کے مجرموں کو سزا سُنادی گئی۔ لیکن بھلا ہو قُرآن کے بتائے ہوئے شرعی قوانین کا جنہوں نے بروقت چار گواہان کی عدم دستیابی اور ڈی این اے ٹیسٹ کے "ناقص” ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے مجرموں کو باعزت بری کردیا۔

Shah Rukh

شاہزیب کے قاتل جن کو حال ہی میں "اللہ کے نام پر” معاف کر دیا گیا

اس ملک میں کہانیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ نوجوان شاہزیب کو دولت اور طاقت کے نشے میں مخمور امیر زادے شاہ رُخ جتوئی نے قتل کیا تو سِول سوسائٹی چیخ اُٹھی۔ ایک بار پھر "انگریزی قانون” سُرخرو ہوا اور قاتل کو سزائے موت سُنا دی گئی۔ لیکن ابھی اسلامی شریعت نے کہاں ہار مانی تھی۔ کروڑوں کا کھیل چلا اور اسلامی قوانین کے تحت وڈیرے کے بیٹے کو بنامِ خُدا معاف کرکے "لائسنس ٹُو کِل” دے دیا گیا۔

اسلامی قانون اس وقت طاقتور اور دولتمند مجرموں کا پسندیدہ قانون ہے۔

ہاں مُجھے پتا ہے آپ کا گِھسا پِٹا تبصرہ آنے والا ہے۔ "اسلام کا تو کوئی قصور نہیں ہے، اسلام کے قوانین کی غلط تشریح کی جارہی ہے”۔

اگر آپ کا شُتر مُرغ اپنا سر ریت سے باہر نکالنے کیلئے تیار ہے تو اُس سے ذرا پوچھئے کہ جب تمام مُسلمان عموما” اور "عُلمائے اسلام "خُصوصا”، دین کی سربلندی اور حفاظت کیلئے جان قُربان کیلئے ہر دم ہرآن تیارہیں تو اُنہیں اسلام اور قرآن کی غلط تشریح کرنے والے یہ لوگ نظر نہیں آتے؟ کیا اُن کی یہ جانبازی صرف غیر مسلموں پر توہین رسالت کا الزام لگاکر اُنہیں مارنے کی حد تک ہی ہے؟ جب جب اسلام پر اعتراض اُٹھتا ہے، تب تب یہی بہانہ سامنے آتا ہے لیکن "عُلمائے حق” کبھی یہ جُرات نہ کرسکے کہ کسی ایسے شخص کے خلاف فتویٰ تک دے دیں جو دین اور قُرآن کی غلط تشریح کرتا ہو۔ عُلماء کی غیرت بھگت سنگھ چوک کے نام پر جاگ سکتی ہے لیکن جب بربریت اور درندگی کیلئے اسلام اور قُرآن کو استعمال کیا جاتا ہے تو یہی غیرت افیون کھاکے سوجاتی ہے اور جاگنے کے بعد "غلط تشریح” کا راگ الاپنا شروع کردیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑا ظُلم ہوگیا، غلط تشریح ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ تو اسلام نے جیسے مجرموں کی ایسی کی تیسی کرنی تھی۔ ہونہہ!

اوران عُلماء پر کیا موقوف، جب کہ خُدا نے خُود قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو پھر بھلا اس کی غلط تشریح ممکن ہے؟ اگر قُرآن کا غلط استعمال ممکن ہے تو کیا یہ محفُوظ تصور ہوسکتی ہے؟ ایک طرف قرآن کے غلط استعمال کی فریاد اور دوسری جانب یہ دعویٰ کہ یہ محفوظ ہے۔ جیسے آپکی گاڑی ہر رات چوری کی واردات میں استعمال ہورہی ہو لیکن آپ کا چوکیدار دعویٰ کرے کہ جناب گاڑی تو محفوظ ہے ورنہ دیکھیں کوئی پُرزہ کم ہو، کوئی ڈینٹ پڑا ہو تو بتائیں۔

اب یا تو خُدا نے اپنی ذمے داری سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے اور یا قُران وہی ہے جس کا استعمال ریمنڈ ڈیویس، شاہ رُخ جتوئی اور مزارِ قائد کے جنسی درندوں نے اپنے تحفظ کیلئے کیا ہے۔ اور اگر قُرآن یہی ہے تو اس سے "انگریزی قانون” کہیں بہتر ہے جس نے انڈیا میں دہلی گینگ ریپ کے مجرموں کو پھانسی کی سزا سُنادی ہے اور انڈین قوم کی خُوش قسمتی کہ وہاں اِن مجرموں کا کسی اسلامی قانون کے تحت بچنا ناممکن ہے۔ مذہب ہمیشہ انسانوں کی بلی دیتا رہا ہے اور جن لوگوں کو ابھی بھی یہ دعویٰ ہے کہ مذہب یا مذہبی قوانین انسانیت کے محافظ ہیں، وہ محض احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔

اِک اور باغی ۔ ۔ ۔ از خانزادہ


Upload This

ہم اپنے رنگ برنگے ثقافتی ملبوسات کو چھوڑ کر اندھا دھند عرب ثقافت اپنائے جا رہے ہیں(لالاجی)

میں نے بچپن میں پڑھا تھا کہ پاکستان ہمارا پیارا مُلک ہے۔ اُس وقت یا تو مُجھے پیار کا مطلب نہیں معلوم تھا، یا شاید اب حالات بدل گئے ہیں کیونکہ اس پیارے مُلک سے پیار کرنا آسان نہیں رہا۔  پیار کرنا تو الگ، پیار کرنے کا دعویٰ ثابت کرنا بھی خُود کو مُشکل میں ڈالنے والی بات ہے۔ مقامی لُغت کے مُطابق اِس مُلک سے پیار کرنا اِس سرزمین سے پیار کرنے کو نہیں کہتے۔ یہاں کے لوگوں سے مُحبت کرنا اور اُنہیں مُحترم سمجھنا اس مُلک کا وفادار ہونے کا ثبُوت ہرگز نہیں ہے۔ یہ دھرتی ہماری جنم بھومی سہی، لیکن اس سے مُحبت، اس مٹی سے مُحبت، پاکستان سے مُحبت کے مُترادف نہیں ہے۔ ہم یہاں کی دھنک رنگ ثقافت میں پلے بڑھے ہیں، لیکن ہمارے خُون میں اس ثقافت کا دوڑنا، ہماری باتوں سے اس کی خُوشبُو آنا، مُلکِ پاکستان سے مُحبت کی علامت نہیں ہے۔ اگر یہاں کی ماں بولیاں ہماری سماعتوں میں موسیقی بن کر اُترتی ہیں، تو یہ کوئی ایسی دلیل نہیں کہ اس سے خُود کو مُحبِ وطن ثابت کیا جاسکے۔ ہمارے ہیرو، بہادر اور دلیر ہیرو، اس مٹی سے جنم لینے والے ہیرو اگر ہمارے دِلوں میں بستے ہیں تو یہ بھی اس مُلک سے پیار کرنے کا کوئی مُعتبر ثبوت نہیں۔ یہاں کے مسائل کو سمجھنا، اُن مسائل پر بات کرنا، اُنہیں اپنی ترجیحات قراردینا آپ کا مشغلہ تو ہوسکتاہے، اس مُلک سے محبت کا اظہار نہیں۔ ہم بھلے قدیم تہذیبوں کے وارث ہوں لیکن ہماری حُب الوطنی اس تہذیبی ورثے کی حفاظت کی مُتقاضی نہیں۔ ہمارے گیت، ہمارے کھیل، ہماری محبتیں، ہماری چاہتیں، ہماری دوستیاں، ہمارے رشتے ناتے، ہمارا لباس، ہماری چادر، ہماری کامیابیاں، ہماری خُوشیاں، ہماری آرزوئیں، ہمارے ارمان، ہمارا فخر، ہمارا مان، ہماری رسمیں، ہمارے رواج، ہمارا معاشرہ، ہمارا سماج، ہمارا کل اور ہمارا آج ۔ ۔ ۔ کسی چیز کو اپنانا اور اُس کے فروغ کیلئے کام کرنا اس مُلک سے مُحبت کا غماز نہیں ہے۔ یہ سب محض ایک مشقِ لاحاصل ہے، دیوانے کی بَڑ ہے!

تو پِھر حُب الوطنی کیا ہے؟

ع۔ حیراں ہُوں دل کو رؤوُں کہ پِیٹوں جگر کو میں

 ۔ ۔ ۔  اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اگر آپ پاکستان سے مُحبت کے دعویدار ہیں، تو عرب سرزمین سے محبت کریں۔ اس مٹی سے محبت کا دم بھرتے ہیں تو مکہ میں دفن ہونے کی خواہش کریں۔ سر پر بِٹھانے کیلئے ہیرو چاہیئے توعرب ابنِ قاسم حاضر ہے۔ بہن بھائی کے رشتے کا استعارہ اور عزت کی روایتی نشانی چادر کو ترک کرکے عربی حجاب اور سکارف اپنائیں۔ مبارکباد سے لیکر خُوش آمدید تک کیلئےغیرمانُوس عربی کلموں کا استعمال کریں۔ مذہبی لحاظ سے کُشادہ دلی اور پُرامن بقائے باہمی کی ایک قابلِ فخر تاریخ کے حامل ہوتے ہوئے سارا دن عربوں کی تنگ دِلی کیلئے من گھڑت جواز تلاش کرتے رہنا ہماری زندگی کا نصب العین ہو۔ اعضاء کاٹنے اور سر قلم کرنے جیسی وحشی سزاؤوں کی وکالت کریں۔ اپنی دھرتی پر قدیم علمی تہذیب کے جیتے جاگتے آثار دیکھتے ہوئے بھی جدید عربی مذہب کی آمد کو انسانی تہذیب کا نقطہءِ آغاز کہیں۔ سماجی اور سیاسی طور پر مُتحرک اپنی خواتین کے بھر پُور کردار کو نظرانداز کرکے عربوں کی پیروی میں خواتین کو عُضوِ مُعطل بنائیں۔ رنگ برنگے مقامی تہواروں کو رد کرکے مذہب کے نام پر اذیت ناک عربی رسوُم و رواج مسلط کریں۔ اپنے مُلک میں روزانہ کی بُنیاد پر نشانہ بنائے جانے والے بیگُناہوں کے قتل پر خاموش رہیں اور عرب مُردوں کا ماتم کریں، اُن کیلئے جلوُس پر جلُوس نکالیں، سڑکیں بند کرکے مُظاہرے کریں۔ عظیم ادبی ورثے کے امین ہوتے ہوئے ادب، شاعری، موسیقی اور رقص کی مُخالفت لیکن عربوں سے درآمد شُدہ بربریت اور درندگی کی تبلیغ کریں۔ مہذب انسانی حُلیے کے بجائے عرب بُدھوؤں جیسا خوفناک حُلیہ اپنائیں۔ مقامی ناموں کو گالی سمجھیں اورعربی ناموں پر فخر کریں، اور اپنی زبان چھوڑ کر عربی زبان کو اپنی زبان کہیں تو ہماری حُب الوطنی ہر شک و شُبہے سے بالاتر ہے۔

2_Mohenjo_daro_The_Great_Bath_Brittanica.com_

موہنجو دڑو(سندھ) کا منظر۔ ہم نے تخت بھائی (پختونخواہ)، مہر گڑھ (بلوچستان) اور ہڑپہ (پنجاب) جیسے تاریخی ورثے سے منہ موڑ رکھا ہے۔ ہمارے ہوٹل، چوک، سڑکیں، محلے، ٹاؤن سب کچھ عربوں نام پر ہیں(لالاجی)

bhagat Singh

اگرچہ بھگت سنگھ ہندوستان کے سارے لوگوں کی آزادی چاہتا تھا اور مسلمانوں کے قائد اعظم بھی اُس کا مقدمہ لڑنے کو تیار تھے مگر پاکستان میں بھگت سنگھ کا نام لینا کفر ہے(لالاجی)

 بھلا ایسی غیر فطری مُحبت کوئی آسان کام ہے۔ دوسری قوموں اور ممالک سے نفرت کرنا بلاشُبہ تعصُب ہے، لیکن اپنے مُلک اور اپنے لوگوں سے پیار کرنا یقینا" ایک فطری جذبہ ہے۔ کم ازکم میرے لئے تو اپنی زمین اور اس سے وابستہ ہر چیز کو نظر انداز کرکے کسی بدیشی مُلک سے مُحبت کرنا اور وہاں کی ثقافت کے گُن گانا قابلِ قبُول نہیں ہے۔ چُنانچہ معاملات کو سادہ رکھنے کیلئے مُجھے یہ اقرار کرنے دیں کہ میں اس مُلک سے باغی ہوں اور مُجھے اپنی اس بغاوت پرفخر ہے۔ اگر اپنی ماں کے حصے کی مُحبت، عزت اور تقدس کسی پرائی شخصیت کو دینے سے انکار کرنا بغاوت ہے تو میں نہ صرف اس بغاوت کو ایک مقدس فریضہ سمجھتا ہوں۔ بلکہ یہ فریضہ ادا نہ کرنے والوں کی بھر پُور مذمت کرتا ہوں۔

؂   یہی جو ٹھہری شرطِ وصلِ لیلٰی

   تو استعفیٰ مِرا باحسرت و یاس

یہ مسلمان نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ؟


ابھی الیکشن کا ہنگامہ تھما نہیں تھا کہ خیبر پُختونخوا کے ايک دُوردراز علاقے کی مساجد میں ہونے والے دھماکوں نے ایک بار پھر درجنوں بیگُناہ جانیں لے لیں۔ رات کو خبروں میں مساجد کے ملبے سے لاشیں نکلتی دیکھ کرعزیز خان صاحب جذباتی ہوگئے، بولے، "نہیں، یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا”۔ بات کرکے اُنہوں نے اپنے بڑے بیٹے گُل خان کیطرف دیکھ، جیسے اُس کا ردعمل جاننا چاہتے ہوں۔ گُل خان کا اپنے والد سے عمُوما" ان معاملات پر اختلاف ہی رہتا تھا۔ "جی نہیں خان بابا، یہ مسلمانوں ہی کا کارنامہ ہے۔ اس علاقے میں میرے کالج کا ایک دوست سکول ٹیچر ہے۔ اُس کے مطابق اس دن گاؤں میں کوئی غیر مسلم نہیں دیکھا گیا۔ اس سے پہلے اس علاقے میں ذبح شدہ لاشیں بھی موصول ہوچکی ہیں اور ذبح ہونے والوں کوبھرے مجمعے کے سامنے اُٹھاکر لے جانے والے باریش کلمہ گو مُسلمان تھے”۔ عزیز خان صاحب کو بیٹے کی بات ناگوار گزری۔ ” تُم اتنے وثُوق سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ مسلمان ہی تھے؟ کسی کے ماتھے پرلکھا ہوتا ہے کیا کہ وہ کس مذہب کا پیروکار ہے؟”

” توکیا آپ نثار کو نہیں جانتے تھے جس کا اپنا ابّا بڑے فخر سے اُسے اُس کے جہادی نام ابُو طلحہ سے پُکاراکرتا تھا؟ کیا وہ مسلمان نہیں تھا؟ کیا وہ اکوڑہ خٹک کے مدرسے میں کُفر سیکھنے گیا تھا؟ کیا آپ نے خُود اُس کی امامت میں دو بار نماز نہیں پڑھی تھی؟”

عزیز خان صاحب جواب دیے بغیر کمرے سے نکل گئے۔ نثار گُل خان لوگوں کا وہ پڑوسی تھا جوببانگِ دہل خود کو القاعدہ کا ادنیٰ سپاہی کہاکرتا تھا۔ علاقے کے لوگ اُسے مُجاہد کہا کرتے تھے۔ اُس کے ساتھیوں نے پچھلے سال گھر والوں کو اُس کی موت کی خبردی لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کیسے مارا گیا۔ غالب گُمان یہ ہے کہ ڈرون حملے میں ماراگیا تھا۔

گُل خان سے یہ گُتھی کبھی نہ سُلجھی کہ لوگوں کیلئے سچ بات کہنا تو الگ، سُننا بھی اتنا مُشکل کیوں ہے۔ یہ مسئلہ صرف اُس کے والد صاحب کا نہیں ہے۔ دہشت گردی کے ہرواقعے کے بعد اسطرح کے بیانات سُننا معمُول کی بات بن گئی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پڑوسی، ہمارے علاقے کے جانے پہچانے لوگ طالبان میں شامل ہوکر اپنے ہی علاقے میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں لیکن ہماری ڈھٹائی ملاحظہ ہو کہ مسلسل یہ تکرار کئے جاتے ہیں کہ ‘نہیں یہ مسلمان نہیں ہیں’۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ صرف یہ لوگ مسلمان ہیں بلکہ وہ ہمارا قتلِ عام بھی اسی اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔  اور وہ اس کام کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ خود کو مُجاہد اور اس جنگ کو جہاد کہتے ہیں۔ بچہ بچہ یہ بات ہر شخص جانتا ہے۔ کیا سوات اور ملاکنڈ میں گاڑیوں سے کیسٹ پلئیر اُتروانے والے اور سی ڈی کی دُکانیں جلانے والے مُسلمان نہیں تھے؟ حجاموں کو دھمکیاں دینے والے کون تھے؟ کیا سوات کے ایف ایم پر قُرآن اور حدیث کا وعظ نہیں ہوتا تھا؟ اور کیا طالبان کے ان تمام اقدامات کو ہمارے مذہبی طبقے کی بھرپُور اخلاقی حمایت حاصل نہیں تھی؟

گُل خان کے خالُو، جو کہ گاؤں کے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ بھلے یہ لوگ خود کو مسلمان سمجھیں، لیکن ان کے عقائد اور اعمال کی بُنیاد پر ہم انہیں مسلمان نہیں مانتے۔ گُل خان سوچتا ہے کہ اگر ایک لمحے کووہ یہ بات مان بھی لے کہ چُونکہ طالبان کے اعمال ‘مسلمانوں والے’ نہیں ہیں لہٰذا یہ مسلمان نہیں ہوسکتے۔ اور یہ کہ یہ دراصل ایک گُمراہ لشکر ہے۔ تو پھر اُن لوگوں کے متعلق کیا کہا جائے جونظریاتی طور پر اس ‘گمراہ’ لشکر کے شانہ بشانہ کھڑےہیں؟ یعنی جماعتِ اسلامی، جمعیتِ عُلماءِ اسلام، اہلِ حدیث، تبلیغی جماعت اور دیوبندی طرزِ فکر کےحامل مدارس ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ آج تک طالبان اور القاعدہ کی دہشت گردی کی مذمت نہیں کی بلکہ گاہے گاہے ان کی صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مساجد میں اَلّلہُمّ النصُرُالمُجَاہِدِینَ فِی الوَزِیرِستَان (اے اللہ وزیرستان کے مجاہدین کی مدد فرما) کے خُطبے کس نے نہیں سُنے؟ ہماری مساجد کے پیش امام جن مدارس کے سند یافتہ ہیں، طالبان بھی تو اُنہی مدارس کی پیداوار ہیں۔ اور آج تک طالبان کی تمام کارروائیوں کو مذہبی اور اخلاقی جواز تو یہی لوگ فراہم کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ مُسلمان نہیں ہیں؟

ڈھٹائی پر ڈھٹائی مُلاحظہ ہو کہ ان خُود کُش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کو غیرمُلکی ایجنسیوں (راء، مُوساد، بلیک واٹروغیرہ) کے کھاتے میں ڈالنے والے لوگ اُس وقت طالبان کے سب سے بڑے وکیل بن کر سامنے آتے ہیں جب طالبان سے بات چیت کی بات کی جاتی ہے۔ اگریہ حملے ہمارے مُسلمان طالبان نہیں کررہے تو اُن سے بات چیت کیا معنی؟ پھر تو ہمیں بلیک واٹر سے بات چیت کرنی چاہیئے یا انڈیا کو مذاکرات کی دعوت دینی چاہیئے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس دوغلے رویے کیساتھ دہشت گردی کے اس عفریت کو ختم کردینگے، تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔ جب تک ہم مُجرم کو مجرم نہیں کہیں گے، قاتل کو قاتل نہیں گردانیں گے ہم قتل ہوتے رہیں گے، ہماری سربُریدہ لاشیں سرِ راہ ملتی رہیں گی۔ اور ہم ‘مُجاہدین’ کے ہاتھوں ‘شہید’ ہوتے رہیں گے۔

ڈی این اے اور فورنزکس… از محمد طارق


 

ہمارے بلاگ آئینہ کے ایک پرستار محمد طارق نے یہ تحریر ہمیں لکھ کر بھیجی ہے۔ ہم بہت ممنون ہیں کہ انہوں نے آئینہ کو اس لائق سمجھا اور عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لئے آئینہ کا انتخاب کیا۔ دیگر دوست بھی اپنی تحریریں ہمیں ارسال کر سکتے ہیں۔ تاہم تحریروں کی اشاعت کا فیصلہ لالا جی محفوظ رکھتے ہیں۔

فورینزک سا ئنس وہ علم ہے جو قانونی مسائل حل کرنے میں عدالتوں کی مدد کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک وسیع موضوع ہے لیکن گزشتہ تیس سالوں کے دوران تفتیشی معاملات میں ڈی این اے کے نمُونوں کے استعمال نے اس عِلم کو جِدت اور تکمیل کی نئی بُلندیوں سے رُوشناس کرایا ہے۔ ڈی این اے کی حیثیت جانداروں کیلئے ایک آئین کی سی ہوتی ہے جس میں لکھی ہوئی ہدایات پر اُس جاندار کے تمام ظاہری خدوخال اور افعال کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہ چار بُنیادی اکائیوں، جنہیں نیوکلیوٹائیڈز کہتے ہیں، سے بنا ہوتا ہے۔ ان نیوکلیوٹائیڈز کو اختصار کی غرض سے انگریزی حرُوف "اے”، "سی”، "جی” اور "ٹی”کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ dna
چُونکہ ہرجاندار میں ڈی این اے ہوتا ہے اور ڈی این اے کی ترتیب میں ایسا تنوع پایا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے اُس جاندار کو شناخت کرنا ممکن ہے، لِہٰذا فوجداری نوعیت کے مقدمات میں اگر کوئی حیاتیاتی نمونہ بطورِ شہادت میسر ہو تو اس نمونے میں سے ڈی این اے حاصل کرکے اس کے ماخذ تک پہنچا جاسکتا ہے۔
ڈی این اے کو قانونی معاملات میں استعمال کرنے کا خیال برطانوی ماہرِ جینیات ڈاکٹر الیک جیفری نے پیش کیا۔ وہ موروثی بیماریوں پر تحقیق کے دوران ولدیت اور امیگریشن کے تنازعات کو جینیاتی بُنیادوں پر حل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ لیسٹر یونیورسٹی میں اپنی تحقیق کے دوران اُنہوں نے دریافت کیا کہ تمام انسانوں کے ڈی این اے مالیکیول میں مخصُوص مقامات پر نیوکلیوٹائیڈز کی تنوع پزیر ترتیب پائی جاتی ہے تاہم اس ترتیب کی لمبائی ہر انسان کے ڈی این اے میں مُختلف ہوتی ہے۔ مثلا” اگر ایک انسان میں اس ترتیب کی لمبائی اسّی نیوکلیوٹائیڈز ہے تو دوسرے میں بیاسی یا چوراسی نیوکیوٹائیڈزہوگی یا ہوسکتاہے کہ اٹھہتر یا چھہتر نیوکلیوٹائیڈز ہو۔ یہ مخصوص مقامات جینیٹک مارکر کہلاتے ہیں۔ ڈاکٹر جیفری کو خیال آیا کہ جینیٹک مارکرز کے اس تنوع کو انسان کی شناخت کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے اس تکنیک کو جینیٹک فنگر پرنٹنگ کا نام دیا۔ اُنہوں نے ثابت کیا کہ ہر انسان کا جینیٹک فنگر پرنٹ منفرد ہوتا ہے اور سوائے ہمشکل جڑواں بھائیوں/بہنوں کے کوئی دو انسان ایک طرح کے جینیٹک فنگرپرنٹس کے حامل نہیں ہوتے۔ فوجداری معاملات میں ایک سے زیادہ (عمُوما” 10-13) مارکرز استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ کسی شک و شبہہ کی گُنجائش نہ رہے۔

ڈاکٹر جیفری کی دریافت کا فورنزکس میں استعمال سب سے پہلے اسی شہر کی پولیس نے کیا جب لیسٹر یونیورسٹی کا آس پاس کے علاقے ہی میں قتل کی دو وارداتیں ہوئیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کسی کی بریت یا سزا کا فیصلہ جینیٹک فنگر پرنٹنگ کے ذریعے ہونا تھا۔ 1983 میں یونیورسٹی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پندرہ سالہ لِنڈا مان کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ تین سال بعد ایک اور پندرہ سالہ لڑکی ڈان اشورتھ کوبھی جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ سترہ سالہ رِچرڈ بُکلینڈ پولیس کی حراست میں تھا اور اُس نے دوسری واردات کا اقبالِ جُرم کر رکھا تھا۔ اس اقبالِ جُرم نے تفتیش کاروں کے ذہن میں شکُوک و شُبہات کو جنم دیاتھا کیونکہ اگر دونوں قتل بُکلینڈ نے کئے ہوتے تو پہلے جُرم کے وقت اس کی عُمر صرف 14 سال ہوتی۔ گُتھی سُلجھانے کیلئے سُراغرسانوں کی ٹیم نے ڈاکٹر جیفری سے مدد طلب کی جنہوں نے دونوں لاشوں پر سے حاصل کئے گئے نُطفے سے ڈی این اے کا بُکلینڈ کے ڈی این اے کیساتھ موازنہ کرکے اُسے بیگُناہ قرار دیا۔ ڈی این اے کے موازنے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ دونوں جرائم کا ارتکاب ایک ہی شخص نے کیا ہے۔ اِن شواہد کی بُنیاد پر قانُون نافذ کرنے والے ادارے نے قاتل کو پکڑنے کیلئے ایک بےمثل کام کا عزم کیا۔ چُونکہ قاتل کے خُون کا گرُوپ ‘اے” تھا، اوروہ ایک اِنزائم "پی جی ایم ون کیلئے پازیٹیو تھا، لہٰذا تین قصبوں سے کُل 4582 مردوں کے خُون کا گرُوپ اور اُن میں مذکُورہ انزائم کی موجودگی کو چیک کیا گیا۔ دس فیصد افراد ان کوائف پرپُورے اُترے۔ چُنانچہ ان افراد کے خُون سے ڈی این اے حاصل کرکے اُسکا تجزیہ کیا گیا۔
کولن پیچفورک نامی ایک مقامی نانبائی نے اپنا خُون نہیں دیا تھا۔ اُس نے اپنے دوست آئن کیلی کیساتھ ساز باز کی اور اُس کی تصویر اپنے پاسپورٹ پر لگاکر اُسے اپنی جگہ خُون دینے بھیجا۔ کئی مہینے بعد یہاں کے ایک رہائشی نے مقامی شراب خانے میں کیلی کی گُفتگو سُنی جس میں اُس نے پیچفورک سے رقم لیکر اُسکی جگہ اپنا خُون دینے کا اعتراف کیا۔ اس رہائشی نے پولیس کو مطلع کردیا جس پر پولیس نے ستائیس سالہ پیچفورک کو گرفتار کرلیا- اُس کے ڈی این اے کا قاتل کے ڈی این اے سے موازنہ کرنے پر پتا چلا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ پیچفورک نے کیس لڑنے کے بجائے دونوں لڑکیوں کی عصمت دری اور قتل کا اعتراف کرلیا۔ 1987 میں پیچفورک ڈی این اے کی مدد سے شناخت کئے جانے والا پہلا مُجرم بن گیا۔ اُسے عُمر قید کی سزا ہوئی جو کم از کم تیس سال تک کی ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں ترقی یافتہ مملک سائنس اور ٹیکنالوجی کو انصاف کے حُصول کیلئے بڑھ چڑھ کر استعمال کررہے ہیں، اور جہاں پر ڈی این اے کی بُنیاد پر مُجرموں تک پُہنچنے کا کام لگ بھگ تیس سال پہلے شُروع ہوگیا تھا، وہیں ہمارے مُلک میں اس معاملے کو مُلا کی جہالت کی نذر کردیا گیا۔ پانچ سال قبل مزارِ قائد کے احاطے میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی جنسی زیادتی کا نشانہ بنی۔ لڑکی نے اپنے مُجرموں کو پہچان لیا اور اُن کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت بھی ہوگیا کہ مُجرم وہی تھے لیکن پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے یہ کہہ کر کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے، ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ اِسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس کے اعلانیے میں کہا کہ ڈی این اے کی شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔