جون ایلیا کا جنرل ایوب خان کے نام ایک خط

(جون ایلیا نے کچھ عرصہ ذہینہ سائیکی کے نام سے کچھ کالم لکھے تھے۔ زیر نظر کالم اپنی بے باکی کے باعث ان کی نثری تحاریر کے مجموعے "فرنود” میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ آئینہ کے قارئین کے لئے یہ نایاب مضمون پیش ہے۔ یہ مضمون فیس بک پر آصف جاوید صاحب نے شائع کیا تھا اور ان کی اجازت سے آئینہ پر شائع کیا گیا…لالاجی)

پاکستان کے صدر محترم! آپ لازماً اس ملک کے مصروف ترین لوگوں میں شامل ہیں اس لیے میں آپ کے قیمتی اوقات میں سے زیادہ وقت لینا نہیں چاہتی لیکن مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ چند نہایت ضروری باتوں کو آپ تک پہچانے کی جرات کر ر4768716075_5494f88139ہی ہوں

جناب والا! آپ کو مجھ سے زیادہ اس بات کا علم ہو گا کہ پاکستان کو ترقی پسندانہ انداز پر چلانے کی راہ میں شروع سے رجعت پسندوں کا ایک طاقت ور طبقہ ہمیشہ آڑے آتا رہا ہے زمین داری کے ختم کرنے کا معاملہ ہو یا ضبط تولید کا مسئلہ، ہماری سوسائٹی کے قدامت پسند اور رجعت پرست طبقے اس کی مخالفت میں شور مچانا اپنا فرض خیال کرتے رہے یہ عقل کے دشمن انسانی راحتوں اور مسرتوں سے نفرت کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں ہر اس معقلول تحریک کی مخالفت میں صفحیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو اس ملک کو مہذب دنیا کے دوش بدوش لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے

صدر مملکت! میں نے یہ مختصر تمہید اس لیے عرض کی تاکہ اس فتنہ انگیزی کا پس منظر آپ کے سامنے آ سکے جو عورتوں کو ابتدائی حقوق دینے کے خلاف رجعت پسندوں نے شروع کی ہے جو ہر معقول تجویز کی مخالفت کرنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں جہاں تک چار شادیوں کے اس وحشیانہ حق کا تعلق ہے جو اب تک مرد حضرات اپنے لیے مخصوص کیے رہے اور جس کے حق میں تقدس مآبوں نے لمبی چوڑی دلیلیں گھڑ لیں دنیا کا کوئی مذہب اور شریف شخص اس کی حمایت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا

پاکستان کے فاضل صدر محترم! میں آپ سے ایک معقول اور شریف مرد کی حیثیت سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ انسانی مساوات اور سماجی عدل کا نعرہ لگانے کے ساتھ ہی کس قانون کس ضابطے اور کس اصول کی رو سے چار شادیوں کا وہ حق جو مرد اپنے لیے مخصوص کر چکے ہیں جو عورتوں کو دینے سے انکار کیا جاتا ہے کیا عورت اور مرد کے معاملے میں مساوات کا مفہوم کچھ بدل جاتا ہے ؟ کیا سماجی انصاف کے وہ سارے اصول جن کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے صرف مرد سے مخصوص ہیں؟

جناب والا! آپ کی حکومت نے منشور اقوام متحدہ پر دستخط کرتے ہوئے یہ عہد کیا ہے کہ صنف اور نسل کا امتیاز کیے بغیر ہر شخص کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے گا کیا اس عہد نامے کے بعد چار شادیوں کا باقی رکھنا کھلا ہوا ظلم اور ہٹ دھرمی نہیں ہے اور اگر مرد تعدد زدواج کو اپنا حق سمجھنے پر اڑے ہوئے ہیں تو میں عورتوں کی طرف سے مطالبہ کرتی ہوں کہ انہیں بھی چار شادیوں کا حق دیا جائے

عائلی کیمشن کی سفارشوں کو منظور کر کے آپ کی حکومت نے ایک بڑا اچھا قدم اٹھایا ہے اس کی مخالفت لازماً وہی لوگ کریں گے جو اس سے پہلے پاکستان کے قیام، قائد اعظم کی قیادت، زمین داری کی تنسیخ اور ہر معقول اور شریفانہ تحریک کی مخالفت کر چکے ہیں اور اگر ان کا بس چلے تو یہ آج ہی ان عورتوں کو گولی کا نشانہ بنا دیں بلکہ اپنی ہی زبان میں "سنگ سار” کرا دیں گے جو پردے کے رواج کو توڑنے کی جرات کرتی ہیں

جناب صدر! اسی کے ساتھ مجھے اور پاکستان کے روشن خیال اور ترقی پسند لوگوں کو آپ سے یہ بھی شکایت ہے کہ آپ نے پردے کو قانوناً جرم قرار دینے کے سلسلے میں اب تک کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا جبکہ ترکی اور ایران کی حکومتوں نے عورتوں کو اس ظلم اور زیادتی سے نجات دینے کے لیے باقاعدہ قانون بنا دیا ہے جب تک اس ملک میں پردے کا رواج باقی ہے قوم کی آدھی آبادی عملاً قوم میں شامل قرار نہیں دی جا سکتی اس لیے اگر آپ پاکستان کی عورتوں کو اس ملک میں برابر کا شہری بنانا چاہتے ہیں تو پردے کو قانوناً جرم قرار دینے کا اعلان کر دیجییے

خاندانی اصلاحات کے ذریعے آپ نے عورتوں کے حقوق کا جو تحفظ کیا ہے اس نے دنیا بھر میں ملک کا وقار بڑھا دیا ہے اور دنیا کے ذمہ دار پریس نے آپ کے اس اقدام کو سراہا ہے میرے خیال میں تعدد زدواج کو بلا کسی شرط کے اخلاقی، سماجی، انسانی اور قانونی جرم قرار دینا چاہیئے طلاق کے معاملے میں عورتوں کو مردوں کے برابر یکساں حقوق دینا چاہیں اس سلسلے میں پاکستان کے مولانا صاحبان نے جو شور و غوغا مچایا ہے اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ رجعت پسندوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیے بغیر پاکستان کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتا

پاکستان کے صدر محترم! پچھلے چودہ سال میں ہماری قوم نے صرف ایک ہی تجربہ کیا ہے کہ ہر وہ تحریک جو انسانوں کی دشمنی اور سماجی نفرت کے لیے چلی مولوی صاحبان کی تمام ہمدردیاں اس کے ساتھ رہیں پاکستان کے بننے سے لیکر اب تک ہر وہ قدم جو عوام کی مسرت اور خوشحالی کے لیے اٹھایا گیا اسے حرام کہہ کر روکنے کی کوشش کی گئی چناچہ فنون لطیفہ کی ہر قسم مولوی صاحبان نے ناجائز قرار دے رکھی ہے اس ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شاعری کو بھی اغوائے شیطانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ایسے بزرگوں کی بھی کمی نہیں جن کے خیال میں "تخلیق” اور خالق کا لفظ فن اور فنکار کے لیے استعمال کرنا کفر اور شرک کا درجہ رکھتا ہے حالاں کہ آج کی کوئی شریف اور مہذب قوم آرٹ کا سرمایا رکھے بغیر وحشی انسانوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی

اگر ان مولوی حضرات کے مشوروں کو مان لیا جائے تو ضبط تولید کی ساری تحریک، ملک کے اول درجے کے تمام ہوٹل، تفریح گاہیں، سینما حال، کلب، بنک، فوٹو اسٹوڈیو، آرٹس کونسلیں، آرٹس کالج اور یونیورسٹیاں جن میں تمام غیر شرعی نظریات، تحقیقات اور ایجادات کی تعلیم دی جاتی ہے ایک دم بند کر دینا پڑیں گے اور پھر جو اس ملک کا حشر ہو گا وہ مولوی صاحبان کے علاوہ تمام لوگوں پر ہویدا ہے جنہیں اللہ نے تھوڑی سی عقل دی ہے

جناب عالی! خاندانی کمیشن کی سفارشوں پر انسانیت کی ترقی سے بیر رکھنے والوں نے جو تحریک چلا رکھی ہے آپ اس سے ذرا متاثر نہ ہوں اس لیے اگر ایسی تحریکوں کا اثر قبول کیا گیا تو پھر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ اوندھی عقل رکھنے والے اس ملک کا کیا حال بنا دیں گے عورتوں سے ان لوگوں کی دشمنی تو خیر پرانی ہے ان میں سے تقریباً ہر ایک اپنے حریف مولوی اور اپنے معتقدوں سے جو نفرت رکھتا ہے اگر اس کا اظہار کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس ملک کی ہر مسجد میدان جنگ بن جائے

محترم صدر! میں آخر میں اس ملک کی آزاد خیال، تعلیم یافتہ اور ترقی پسند خواتین کی طرف سے آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ آپ رجعت پسند ملاؤں سے سمجھوتا کرنے کی کوئی کوشش نہ کیجیے آپ پاکستان کی بہبودی کے لیے جو کام کر رہے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کو ان حضرات کی دشمنی مول لینا پڑے گی سابقہ حکومتوں کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ وہ حضرات علما کو سر پر بیٹھا کر عوام کے مفادات اور مطالبات کو نظر انداز کر دیتی تھیں میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ آپ اس غلطی کا اعادہ نہ ہونے دیں ورنہ نہ تو آپ کا پنج سالہ منصوبہ کامیاب ہو گا اور نہ دوسری اصلاحی کوششیں

امید ہے کہ آپ میری اس جرات اور جسارت کو معاف فرمائیں گے اور میں نے ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے جو باتیں آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں ان پر ضرور توجہ کریں گے

کراچی 15 اپریل 1961

میں ہوں ایک ناچیز پاکستانی ذہینہ سائیکی

تبصرہ کریں