بادشاہتوں کے زمانے میں ہاتھیوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ ہاتھی رکھنا شان وشوکت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ انہی دنوں سفید ہاتھی کی اصطلاح نے جنم لیا۔ سفید ہاتھی سے مراد کوئی ایسی چیز لی جاتی ہے جس کی دیکھ بھال پر اچھا خاصا خرچ آتا ہو لیکن عملی طور پر ا س چیز کی کوئی افادیت نہ ہو۔ مملکت پاکستانیہ اوّل روز سے ہی ایسا ایک سفید ہاتھی پال رہی ہے۔ ابتدائی دور ہی سے ملکی مفاد اور فوجی مفاد کچھ ایسا گڈ مڈ ہوا کہ یہ تفریق ہی مٹ گئی۔ دور حاضر میں قومی مفاد اور فوجی مفاد کا ایک ہی مفہوم سمجھا جاتا ہے۔ ملک ابھی قائم بھی نہیں ہوا تھا کہ فوجی دستوں نے کشمیر کا محاذ کھول دیا اور اسلحے کے علاوہ بہت سا قومی سرمایہ بھی اس دلدل میں ضائع ہوا۔ملک کے پہلے بجٹ میں فوجی اخراجات کو تمام تر اخراجات میں سے ستر فیصد حصہ ملا۔مارچ 1951 ء میں وزیر خزانہ غلام محمد نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دفاعی اخراجات ہمارے ملک کے رقبے اور استعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں۔ بعد ازاں بھارت سے لڑنے کیلئے فوج نے امریکہ کے آگے کشکول لہرایا اور 65ء کی جنگ تک خوب ڈالر کمائے۔ اس کے بعد کبھی چین، تو کبھی روس اور آخر کار عرب ممالک نے ہماری بہادر افواج کی سرپرستی کا ٹھیکا اٹھایا۔
ستم یہ ہے کہ فوج ملکی خزانے کا ایک بڑا حصہ ہڑپ بھی کر لیتی ہے اور اس لوٹ مار کے خلاف تنقید بھی برداشت نہیں کرتی۔ اردو اخبارات سے تو خیر کیا شکوہ کرنا، انگریزی اخبارات بھی ان معاملات میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں، کہ آخر اپنی جان تو سب کو پیاری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے 2007ء میں فوجی اداروں کو ایک کاروبار کا نام دیا تھا کہ جس طرح فوج اپنے معاشی مفادات کا خیال رکھتی ہے، اس طرح کے اقدام سرکاری ادارے نہیں بلکہ کاروبار والے اٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ کی کتاب تو اب پاکستان میں دستیاب نہیں لیکن اس کے خلاف باز گشت ابھی تک فوجی رسائل میں موجود ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کے بعد فوج نے اپنے اعمال سے توبہ کرنے کی
بجائے کام جاری رکھا۔ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کے کاروبار پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔
سنہ 2001ء میں مشرف صاحب نے فوجیوں کی پنشن کو فوجی بجٹ کی بجائے سویلین بجٹ میں شمار کرنے کی ہدایت کی۔ سال 2010ء میں تیس لاکھ سابقہ فوجی ملازموں کی پنشن کی مد میں چھہتر(76) ارب روپے مختص کئے گئے۔اسکے علاوہ فوج ترقیاتی کاموں کیلئے مختص شدہ فنڈ سے بھی پیسے حاصل کرتی ہے۔ہمارے سالانہ بجٹ کا بیشتر حصہ بیرونی قرض ادا کرنے پر صرف ہوتا ہے اور یہ قرض بھی دراصل فوجی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہی تو لیا جاتا رہا ہے۔
رواں سال فروری کے مہینے میں لاہور ہائی کورٹ نے فوج سے پوچھا کہ فورٹریس سٹیڈیم کے علاقے میں تعمیر کیا جانے والا شاپنگ سینٹر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے یا نہیں، کیونکہ یہ زمین وفاقی حکومت کی طرف سے فوج کو دفاعی ضروریات یا عمارات بنانے کیلئے دی گئی تھی لیکن فوج نے اس زمین کو نجی کمپنی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ فوج کی جانب سے جواب داخل کروایا گیا کہ وہ زمین ابھی تک ’دفاعی اور عسکری ضروریات‘ کے ضمن میں استعمال کی جا رہی ہے۔ شاپنگ سینٹر کے ذریعے کون کون سے دفاعی مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں، اس امر پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تحقیق جاری ہے۔
پاک بحریہ نے 1995ء میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی(CDA) سے اپنے افسران کی رہائش گاہیں قائم کرنے کیلئے اونے پونے داموں زمین حاصل کی۔ اب اس زمین پر قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیول ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیر کی جا چکی ہے جہاں پلاٹ عام شہریوں کو مہنگے داموں بیچے جا چکے ہیں۔پاکستانی سمندروں کی محافظ بحریہ کے اس اقدام کے باعث سرکاری خزانے کو کئی کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ اسلام آباد میں موجود نیول ہیڈ کوارٹر براہ راست شاپنگ پلازے چلا رہا ہے لیکن کم ازکم ہمارے سمندر تو دشمن کی یلغار سے محفوظ ہیں۔
اکتوبر 2014 ء میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے انکشاف کیا کہ پچھلے مالی سال میں پاکستان کے خزانے کو فوجی اداروں کی کرتوت کے باعث ایک سو تہتر (173) ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ موازنے کی رو سے اتنی رقم میں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں میٹرو بس بنائی جا سکتی ہے۔ پچھلے بیس سال میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے فوجی اداروں کی مالی بے ضابطگیوں پر تین ہزار سے زائد نوٹس جاری کیے جن میں سے صرف ڈیڑھ سو کا جواب میسر آیا۔
آڈیٹر جنرل نے پاک فضائیہ کی کراچی میں واقع فیصل بیس کے سربراہ سے درخواست کی کہ سرکاری جہاز وں C-130 پر فوجی اداروں کے کارکنان اور انکے خاندانوں کو سوار کر کے ہر ہفتے اسلام آباد لے جانے کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ اس وجہ سے رواں سال قومی خزانے کو چوالیس(44) کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فوجی تعمیراتی ادارے FWO کو نجی تعمیراتی اداروں کے برعکس ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔
کراچی کے علاقے قیوم آباد میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ملازم مقامی لوگوں کو وہاں موجود قدیم قبرستان میں مردے دفن کرنے سے روک رہے ہیں کیونکہ اس جگہ کو ہتھیانے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔ کراچی ہی کے علاقے غازی کریک میں ڈیفنس فیز سیون(7) اور ایٹ(8) سے ملحقہ علاقہ پر قبضہ جاری ہے اور اگر یہ منصوبہ جاری رہے تو اس کریک کے اردگرد 490 ایکڑ رقبے پر پھیلے چمرنگ(Mangroves) کا صفایا ہو جائے گا۔ لاہور میں واقع ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اب گوجرانوالہ، ملتان اور بہاولپور میں اپنی شاخیں قائم کر رہی ہے۔
فوج کے پچھلے کمانڈر کے برادر محترم پراپرٹی کے کاروبار میں ملوث تھے اور آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے بھائی کو پی آئی اے میں کروڑوں روپے ماہانہ کی تنخواہ پر تقرر کیا گیا ہے۔ برطانوی راج کے دور میں سرکار فوجیوں میں زمین بانٹتی تھی تاکہ انکی اور انکے خاندانوں کی وفاداری حاصل کی جائے۔ سامراجی دور میں قانون بنا کہ حکومت ملک کے کسی بھی علاقے کو ’قومی مفاد‘ کے نام پر شہریوں سے خالی کرا سکتی ہے۔ یہ قانون ابھی تک ہمارے ملک میں رائج ہے۔
ایوب خان کے دور میں فوجی افسران کو زمین بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوا۔پہلے پہل اس ضمن میں سرحدی علاقوں کے قریب زمین حاضر سروس یا ریٹائر فوجی اہلکاروں کے نام لگائی جاتی تھی تاکہ بھارت کی جانب سے جارحیت کی شکل میں ابتدائی مدافعت کی جا سکے۔اس دور میں ایک مارشل لاء حکم کے تحت سرکاری ملازمین پر ایک سو ایکڑ سے زیادہ زمین رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی البتہ فوج کے ملازمین پر یہ حکم لاگو نہیں تھا۔لیہّ کے علاقے چوبارہ میں بیس ہزار ایکڑ زمین، ایک سو چھیالیس (146) روپے فی ایکڑ کے حساب سے فوجی ملازمین کو سنہ 1982ء میں عطا کی گئی۔ اسی تحصیل کے علاقے رکھ جدید میں چالیس ہزار ایکڑ زمین ملتے جلتے داموں 2007 ء میں فوجی ملازمین کے نام کی گئی۔ پنجاب ریونیو بورڈ کی دستاویزات کے مطابق 1990ء سے 2010ء کے دوران صوبے کے تین اضلاع (اوکاڑہ، بہاولپور اور خانیوال) میں ایک لاکھ ایکڑ زمین فوج کے حوالے کی گئی۔ راجن پور میں فرید ایئر بیس سے ملحقہ 335 ایکڑ زمین پاک فضائیہ نے ہتھیا رکھی ہے اور اس زمین پر استعمال کیا جانے والا پانی فتح پور نہر سے چرایا جاتا ہے۔
پنجاب حکومت نے سنہ 1913ء میں نو مختلف اضلاع(ملتان، خانیوال، جھنگ، سرگودھا، پا ک پتن، ساہیوال، وہاڑی، فیصل آباد اور لاہور) میں اڑسٹھ(68) ہزار ایکڑ رقبہ مختلف سرکاری محکموں کو کرائے پر دیا جس میں سے چالیس فیصد رقبہ فوج کے پاس تھا۔سنہ 1943ء کے بعد سے پنجاب حکومت کو اس زمین کی مد میں ایک پیسہ بھی کرایہ نہیں ملا۔
پاکستان ریلوے سے فوج کی یاد اللہ پرانی ہے۔ سنہ 1978ء میں کراچی بندرگاہ پر فوج کو مقامی انتظامیہ کی مدد کیلئے تعینات کیا گیا لیکن کچھ ماہ بعد یہ بندوبست ختم ہو گیا۔ اس دوران فوج نے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد سے ملک میں سامان کی ترسیل کا کام ریلوے کی بجائے فوج کے ادارے نے شروع کر دیا اور بہت جلد ریلوے کا دیوالیہ نکل گیا۔ صرف مالیاتی سطح پر ہی نہیں، فوجی اداروں نے ریلوے کی کئی ہزار ایکڑ زمین بھی ہتھیا لی، جس میں سے ایک ہزار ایکڑ پاک فوج جبکہ پانچ سو ایکڑ زمین رینجرز سے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد واپس لی گئی۔ البتہ اب بھی کم از کم دو ہزار ایکڑ زمین ان اداروں کے قبضے میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل NLC نے ریلوے کی نجکاری کیلئے مہم شروع کی اور اس سلسلے میں کوریا سے کچھ سامان بھی منگوا لیا لیکن ریلوے ملازمین کی مزاحمت کے باعث ابھی تک یہ سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ سنہ 2012 ء میں قومی اسمبلی کی خصوص کمیٹی نے لاہور میں ریلوے کی ایک سو چالیس ایکڑ زمین پر غیر قانونی طور پر قائم شدہ گالف کلب کے مسئلے میں تین جرنیلوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق اس عمل سے ملکی خزانے کو پچیس ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
فوج کے ماتحت ایک ادارہ رینجرز نام کا بھی ہے جس کی بے ظابطگیاں اور کرپشن کی داستانیں عوام تک بہت کم پہنچتی ہیں۔ رینجرز کی بنیادی ذمہ داری پاکستان اور بھارت کے مابین عالمی سرحد کی نگرانی کرنا ہے۔ تحصیل سیالکوٹ میں کسی کسان یا زمیندار کو نالوں کے کناروں سے مٹی چاہئے تو ہر ٹرالی پر سو روپیہ ’کرایہ‘ رینجر ز کو دینا ہوتا ہے۔ شیخوپورہ میں رینجرز اہلکار مٹی کی ایک ٹرالی چار سو روپے کے عوض بیچتے ہیں۔بہاول نگر، شیخوپورہ اور سیالکوٹ میں شکار کیلئے رینجرز کی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور شکار پارٹیوں کا بندوبست بھی رینجرز اہلکار کرتے ہیں۔ شکر گڑھ میں رینجرز اہلکار ایک شادی ہال چلا رہے ہیں۔ رحیم یار خان میں ان شہزادوں نے شاپنگ مال (جسکا نام روہی مارٹ ہے) کھول رکھا ہے۔
بہاول نگر اور بہت سے سرحدی علاقوں میں رینجرز کئی سال تک پیپسی جیسا ایک مشروب بیچتے رہے اور کچھ عرصہ قبل اس کے خلاف کارروائی ہوئی۔ بدین اور ٹھٹھہ کے مچھیروں پر رینجرز نے اپنی مرضی کے ٹھیکے دار مسلط کرنے کی کوشش کی جسکے خلاف مقامی آبادی میں احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا۔
ظلم کی انتہا ہے کہ فوجی بھائی اور انکے خاندان تو چھٹیاں بھی سرکاری خرچ پر فوج کے میس اور گیسٹ ہاؤسوں میں گزارتے ہیں اور ریٹائر شدہ فوجیوں کی تنخواہ سویلین بجٹ سے کٹتی ہے۔ تیرے دیوانے جائیں تو کدھر جائیں؟ فوجی اہلکاروں سے پوچھا جائے تو فوری طور پر قومی مفاد کی لال جھنڈی لہرانا شروع ہو جاتے ہیں، کیونکہ آخرکار قوم کا مفاد فوج کے مفاد میں ہی تو پنہاں ہے۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی شدید غربت میں زندگی گزار رہی ہے، اسّی فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں، کروڑوں بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ نامی کوئی چیز ہمارے ہاں موجود نہیں لیکن فوج کے پاس اعلیٰ ترین ہتھیار تو ہیں، ایٹم بم تو ہے، میزائل تو موجود ہیں، تنخواہ تو مل رہی ہے۔ استاد دامن نے یونہی تو نہیں کہا کہ پاکستان وچ موجاں ای موجاں، جدھر ویکھو فوجاں ای فوجاں۔
کچھ دوستوں کو اعتراض ہے کہ سیاست دان فوج سے زیادہ کرپٹ ہیں اور یہ کہ دیگر ممالک جیسے امریکہ یا برطانیہ یا چین میں بھی فوج کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن عرض ہے کہ امریکہ یا برطانیہ یا چین میں افواج سیاست دانوں کی کنپٹیوں پر ہمہ وقت بندوق تانے موجود نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہاں جرنیل ریٹائر ہونے کے بعد ملکی مفاد کے مامے بن کر سرعت سے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتے ہیں۔ چین یا امریکہ کے جرنیلوں نے پچھلے ستر سالوں میں اپنی حکومتوں کے خلاف گیارہ تختہ الٹنے کی سازشوں میں حصہ نہیں لیا اور اگر وہاں فوج کے اخراجات پر خرچ ہوتا ہے تو ان ممالک کی معیشت اس قابل ہے۔ ہماری معیشت کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ ننگی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی۔
رہی بات کرپشن کی تو سیاست دانوں کو تو سنہ 58ء سے کرپشن کے الزامات میں ملوث کر کے سیاست سے دور کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، آج تک کوئی حاضر سرو س تو کیا، ریٹائر جرنیل بھی کرپشن کے الزام میں جیل گیا ہے؟ مہران بنک سکینڈل میں عدالت اپنا فیصلہ سنا چکی ہے، کیا ان ریٹائر جرنیلوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے؟ ایف سی کے سربراہ کو عدالت نے طلب کیا تھا تو عارضہ ء دل کا بہانہ بنا کر رخصت لے لی گئی تھی، ان کے خلاف انصاف اسلام آباد کے محلہ کنٹینر پورہ میں کیوں نہیں مانگا جاتا؟ تبدیلی کے متوالے سیاسی کرپشن کے ہی درپے کیوں ہیں؟ فوج کی بے پناہ کرپشن کے بارے میں تحریک انصاف کے کسی محلے لیول کے کارکن کی جانب سے بھی کبھی بیان جاری نہیں ہوا۔
Its amusing to note that Dr Ayesha Siddiqa wrote a whole book, to malign a system (MILBUS) whose worth does not exceed 0.8% of Pakistans free market economy
Source: http://defence.pk/threads/ayesha-siddiqas-military-inc-a-deflective-and-derogatory-book.15657/#ixzz3JON2UeDB
ملٹری انکارپوریشن ، کتاب پڑھنے کے لیے اس لنک پر طق کریں
https://www.facebook.com/groups/librarypk/495983570514696