امت مسلمہ کے لئے مشورہ


فوٹو: رضوان تبسم (اے ایف پی)۔۔۔ پشاور ۱۸ ستمبر ۲۰۱۲

 پچھلے چند دنوں سے مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے۔ ہماری گلی میں ایک بابا جی رہتے تھے جو غصے کے بہت تیز تھے۔ بے چارے عمر کے اُس حصے میں تھے کہ زیادہ چل پھر بھی نہیں سکتے تھے۔ پتہ نہیں کیسے مگر کسی وجہ سے لفظ "ٹائم” اُن کی چھیڑ بن گیا تھا۔ جب محلے کی بچہ پارٹی کو پتہ چلا تو ہر کسی نے بابا جی کو چھیڑنا شروع کر دیا۔ کہیں گلی میں دیکھ لیتے تو پاس سے گزرتے ہوئے کوئی ایسا جملہ ضرور کہتے جس میں لفظ "ٹائم” آتا ہو۔ مثلاً:

"یار ٹیوشن کا ٹائم ہو گیا ہے”
"آج اندھیرا اجالا کس ٹائم لگے گا”

"نہیں یار، میرے پاس ٹائم نہیں ہے”

 بابا جی لفظ ٹائم سنتے تو آگ بگولا ہو جاتے،ایک ایک کو خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیتے، ہمیں پکڑنے کی کوشش میں تھوڑا سا دوڑتے پھر کھانستے ہوئے کسی تھڑے پر بیٹھ جاتے یا کسی دیوار سے کے سہارے کھڑے ہو کر سانس بحال کرتے۔ اتنی دیر میں کوئی اور لڑکا کوئی ایسا ہی جملہ کہتے ہوئے گزر جاتا اور بابا جی ایک بار پھر بپھر جاتے۔ کئی بار ہمارے والدین سے شکایتیں بھی لگا چکے تھے اور ہم سب کو اس شرارت پروالدین سے ڈانٹ بھی پڑ چکی تھی، بلکہ خود مجھے تو ابا جی سے جوتے بھی پڑے تھے۔ مگر ہم لوگ بابا جی کو تنگ کرنے سے باز نہ آتے تھے۔

 جوں جوں میں امریکہ میں پیغمبرِ اسلام کے خلاف بننے والی فلم کے خلاف امتِ مسلمہ کا رد عمل دیکھتا ہوں، مجھے وہ بابا جی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ امتِ مسلمہ مجھے اُس کمزور بوڑھے شخص جیسی لگتی ہےجس میں اتنی قوت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر نوعمر شریر لڑکوں کو پکڑ کر دو تھپڑ رسید کر دیتا، مگر وہ سب کو چیخ چیخ کر خوفناک تنائج کی دھمکیاں ضرور دیتا تھا۔ بالکل اسی طرح مغربی ممالک میں چھپنے والے کارٹون، کتاب یا فلم کے رد عمل میں کمزور امت مسلمہ کے کچھ جوشیلے مگر زمینی حقائق سے کوسوں دور مولوی امریکہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ جیسے وہ بابا جی بھول جاتے تھے کہ انہوں نے انہی شریر لڑکوں کی مدد سے اپنے گھر کے کئی کام کرنے ہوتے تھے (مثلاً قریبی ٹیوب ویل سے پینے کا پانی بھر کر لانا) بالکل ویسے ہی ہمارے جوشیلے مولوی یہ بھول جاتے ہیں کہ تقریباً ساری مسلم امت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر کتنا زیادہ انحصار کرتی ہے۔

 جوشیلا مولوی جس سپیکر کے ذریعے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچاتا ہے وہ مغربی ممالک کی دین ہے۔ وہ جس ٹی وی کیمرے کے آگے کھڑا ہوکر امت مسلمہ کے جذبہء ایمانی اور غیرت کو جگانے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی مغربی مملک کی سائنسی ترقی کی دین ہے۔حتیٰ کہ جس مسجد کے منبر پر کھڑا ہو کروہ وعظ کرتا ہے وہ بھی مغربی ممالک سے درآمد کردہ ٹیکنالوجی سے مدد لے کر تعمیر کی گئی ہے۔ وہ جس گاڑی میں پھرتا ہے وہ بھی مغربی ممالک سے آئی ہے، اُس کے ساتھ موجود محافظوں کے پاس جو اسلحہ ہے وہ بھی امریکہ کی دین ہے۔

 جس طرح وہ بوڑھے بابا جی ہم نو عمر لڑکوں کے پیچھے بھاگنے کی کوشش میں کھانسی کے دورے کا شکار ہو جاتے تھے اور اپنا کام بھول کر تھڑے پر بیٹھ کریا دیوار کا سہارا لے کر اپنا سانس بحال کرنے کی کوشش کرتے تھے بالکل اسی طرح امت مسلمہ بھی اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا کر، اپنے ہی چند بندے مار کر سانس بحال کرنے بیٹھ جاتی ہے۔

 خیر بابا جی کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ آخر لڑکوں نے بابا جی کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ آپ سب حیران ہوں گے کہ ایسا کیوں کر ممکن ہوا ہوگا بلکہ شاید  پڑھنے والوں میں سے آدھے تو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ شائد بابا جی وفات پا گئے ہوں گے اس لئے لڑکوں نے تنگ کرنا چھوڑ دیا ہوگا۔ نہیں ایسی بات نہیں۔

 ہوا یہ کہ ایک دن دولڑکوں نے بابا جی کے پاس سے گزرتے ہوئے حسبِ عادت "ٹائم” کے حوالے سے کوئی بات کی اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر پیچھے سے نہ تو گالی سنائی دی اور نہ ہی کوئی دھمکی۔ دونوں لڑکے تھوڑی ہی دور جا کر رُک گئے اور مڑ کر دیکھا کہ بابا جی کو کچھ ہو تو نہیں گیا۔ مگر بابا جی ٹھیک ٹھاک گلی میں چلے جا رہے تھے اورلڑکوں کے ہونق چہروں کو دیکھ کر مسکرا بھی رہے تھے۔ لڑکے ہکا بکا بابا جی کو دیکھ رہے تھے۔ بابا جی اُن کے قریب آئے تو لڑکے ڈر کر پھر پیچھے ہٹ گئے۔ بابا جی بولے، "ارے ڈرو نہیں شیطانوں…اب تم لوگوں کو کُچھ نہیں کہوں گا”۔

 بس اُس دن سے بابا جی کو چھیڑنے میں کوئی مزہ نہیں رہا۔نہ وہ ہمارے پیچھے بھاگتے تھے، نہ گالی دیتے تھے، نہ کوئی دھمکی۔ چنانچہ ہم سب نے "ٹائم، ٹائم” کی رٹ چھوڑ دی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ محلے کی مسجد کے امام صاحب نے بابا جی کو مشورہ دیا تھا کہ ان "شیطانوں” کی حرکتوں پر سخت رد عمل نہ دیا کریں، تو یہ خود بخود سدھر جائیں گے۔ بابا جی نے اس مشورے پر عمل کیا اور ہم سب لڑکے سدھر گئے۔ شائد امت مسلمہ کو بھی اسی مشورے کی ضرورت ہے۔ شائد امت مسلمہ کا مسئلہ بھی اسی مشورے پر عمل کر کے حل ہو جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔