اجمیر شاہ شہید…تجھے نشان حیدر دینے کی بات کرنے والا بھی کوئی نہیں


اجمیر شاہ

 ۲۸ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ایک خود کُش حملے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔ ہمارے میڈیا کو ذرا بھی شرم نہ آئی کہ اس واقعے کو رپورٹ کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی شہادت کی نہیں ہلاکت کی خبر دی اور خاموش ہو گیا۔ ہمارے ملک میں ہمارے جرنیلوں کی کارگل جیسی حماقتوں کی نذر ہونے والے فوجی جوانوں ہی کو شہید کا لقب ملتا ہے، بے چارے پولیس اہلکاروں کے نصیب میں اتنی عزت کہاں۔ نشان حیدر بھی صرف فوجیوں کے لئے مخصوص ہے۔ پولیس اہلکاربھلے کتنا ہی جان ہتھیلی پر لئے پھرتا ہو، اُسے نشان حیدر کی سعادت کے لائق نہیں سمجھا جائے گا۔ محکمہ پولیس کے پاس آئی ایس پی آر بھی نہیں ہے کہ اپنے شہید اہلکاروں کی زندگیوں پر بڑے بجٹ کا تیرہ اقساط پر مبنی کوئی ڈرامہ ہی نشر کروا سکے۔ یوں بھی ہماری اپنی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے طالبان کو چن چن کر مارنے والا کسی بھی ایوارڈ یا عزت و احترام کا مستحق کیوں کر ہو سکتا ہے۔

۲۸ اکتوبر کو شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں میں ایک اجمیر شاہ بھی تھا جسے اُس کی بہادری پر  صدرکی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ تاہم پھر بھی اجمیر شاہ کی شہادت پر ہمارے میڈیا کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اجمیر شاہ کی خدمات پر چھوٹی سی خبر ہی پیش کر دیتے۔ کرتے بھی  کیسے اُسی روز طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے کے ہمدرد و ہم نوا جناب شہباز شریف صاحب جو لاہور میں گل افشانی فرما رہے تھے اس کی کوریج بھی تو بہت ضروری تھی۔ یاد رہے کہ مذکورہ خود کش حملے کی ذمہ داری طالبان نے فوری طور پر قبول کر لی تھی۔ یہ خود کُش حملہ محض عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ کئی طالبان کمانڈروں کو گرفتار یا ہلاک کرنے والے ذمہ دار، نڈر اور فرض شناس پولیس افسر کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔

اجمیر شاہ اپنے استاد اور گرو صفوت غیور سے بہت متاثر تھا (یاد رہے کہ صفوت غیور کو بھی طالبان نےاگست ۲۰۱۰ء میں ایک خود کش حملے میں شہید کر دیا تھا۔ صفوت غیور کو بعد از شہادت نشانِ شجاعت سے نوازا گیا)۔ صفوت غیور کی رہنمائی میں اجمیر شاہ نے چند سال پہلے طالبان میں شمولیت اختیار کی اور مہمند میں ان کا ساتھی بن کر ان کے اندرونی نظام کا بخوبی مطالعہ کرتا رہا۔ طالبان کے اندر رہ کر اجمیر شاہ نے ان کو اس حد تک سمجھ لیا تھا کہ جب اُن میں سے باہر نکلا تو طالبان کے لئے خطرناک دشمن ثابت ہوا۔ اُس نے کئی کامیاب آپریشن کئے جن میں طالبان کے اہم کمانڈر اور سہولت کار یا تو پکڑے گئے یا مارے گئے۔ حال ہی میں گرفتار ہونے والے جنت گل کی گرفتاری میں بھی اجمیر شاہ کا کردار بہت اہم سمجھا جا تا ہے۔ اسی طرح چند ماہ قبل قاری باسط کی ہلاکت براہ راست اجمیر شاہ کی سربراہی میں کئے گئے آپریشن میں ہوئی تھی۔

اجمیر شاہ کی زندگی پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ اُس پر پہلے بھی کئی حملے ہو چکے تھے مگر وہ ہر بار بچ جاتا تھا۔ تاہم اس مرتبہ قسمت نے اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بقول اُ س کے رفقاء کے اُسے بہت اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ تاہم وہ ڈر کر بھاگ جانے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ کئی سال سے شادی سے محض اس لئے انکار کرتا چلا آیا تھا کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ وہ خطروں سے کھیل رہا تھا اور اُس کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل اُس کے والدین کے بے حد اصرار پر اسے سر جھکانا پڑا اور اُس نے شادی کر لی۔

 اُس کی حفاظت کے پیشِ نظر پولیس حکام کی طرف سے اُس کے وردی پہننے اور پولیس موبائل استعمال کرنے پر پابندی عائد تھی۔ اجمیر شاہ ایک پرائیویٹ گاڑی استعمال کر تا تھا۔ جمعہ کے روز ایک خود کش حملہ آور اُس کی گاڑی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ جونہی اس کی گاڑی قریب پہنچی تو حملہ آور نے دھماکے سے خود کو اُڑا دیا۔ اجمیر شاہ اور اس کا ساتھی ڈرائیور شہید ہو گئے جبکہ چھ راہگیر بھی اس دھماکے میں شدید زخمی ہوئے۔ تحریک طالبان درہ آدم خیل کے ترجمان نے میڈیا کے نمائندوں کو فون کر کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے بی بی سی اردو کا یہ صفحہ