عمران خان کا تازہ انٹرویو

 بروز جمعرات آٹھ اگست کو نسیم زہرہ نے عمران خان کا ایک انٹرویو کیا جو کیپیٹل ٹی وی پر نشر ہوا۔ لالاجی نے یہ انٹرویو بڑے شوق سے دیکھا کہ عمران خان کے آزادی مارچ کے حوالے سے پروگرام کے بارے میں کوئی تفصیلات سننے کو ملیں گی مگر یہ انٹرویو دیکھنا/سننا خود کو اذیت دینے کے مترادف ہی ثابت ہوا۔ اس سے فائدہ کچھ نہ ہوا۔ 

سیدھی سی بات یہ ہے کہ عمران خان کے انتخابی نظام  پر اعتراضات بالکل بجا ہیں اور جن خامیوں کی وہ نشاندہی کرتے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔ مگر عمران خان کے پاس ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔ اس انٹرویو میں نسیم زہرہ پوچھتی رہ گئیں کہ آگے کیا کرنا ہے اور عمران خان مسلسل اس سوال کو ٹالتا رہا اور آخر پہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ محض اتنا جواب کہ ۱۱ اگست کو مطالبے پیش کر دئے جائیں گے جو سب کے سب آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ہوں گے۔ 

سوال مطالبے پیش کرنے کا نہیں ہے۔ سوال ان مطالبوں کومنوانے کے طریقے کا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مطالبہ ہے وزیراعظم کا استعفیٰ۔ اگر وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیتے تو پھر کیا کریں گے۔ آئین اور قانون کے مطابق اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی ہوگی۔ مگر اسمبلی میں پارٹی پوزیشن سے یہ بات واضح ہے کہ ایسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ یاد رہے کہ دھرنے اور احتجاج اور ملکی نظام کو غیر فعال کردینا کسی بھی طرح آئینی اور قانونی طریقہ نہیں وزیر اعظم کو ہٹانے کا۔ 

اب اہم ایک اور ممکنہ صورت حال پر غور کر تے ہیں۔ فرض کریں کہ نوازشریف کو لگتا ہے کہ اسے استعفیٰ دے دینا چاہئے اور موجود اسمبلی ختم کر دینی چاہئے۔ آئین میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ وزیر اعظم صدر پاکستان سے درخواست کرے کہ اسمبلی تحلیل کر دی جائے تو صدر اس بات کا پابند ہے کہ وہ اسبملی تحلیل کر دے۔ اگر صدر یہ فیصلہ نہیں کرتا تو بھی آئین کے مطابق قومی اسمبلی دو دن بعد تحلیل تصور کی جائے گی۔ ایسے میں نئے انتخابات کا اعلان ہوگا۔ چونکہ موجودہ اسمبلی نے انتخابی اصلاحات کا کوئی قانون متعارف نہیں کروایا سو انتخابات اسی پرانے الیکشن کمیشن نے پرانے قوانین اور پرانے نظام کے تحت کرانے ہیں۔ یعنی نئے انتخابات کی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔ ایسے میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ نئے انتخابات کے بعد ہم عمران خان کو ایک بار پھر سڑکوں پر دیکھیں گے۔ 

اس مارچ سے جو اچھی توقع وابستہ کی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس طرح سے عوامی دباؤ پیدا کیا جائے اور انتخابی اصلاحات کے عمل کو تیز کر لیا جائے۔ مزید یہ کہ گزشتہ انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کی تحقیقات کا سلسلہ بھی تیز کروا لیا جائے۔یہ نتائج ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمنٹ کی کمیٹی کی تشکیل ہو گئی ہے اور خوشقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس کمیٹی کا بائیکاٹ نہیں کیا جو کہ بہت خوش آئیند ہے۔ اسی طرح حکومت منتخب شدہ حلقوں میں دوبارہ گنتی پر بھی تیار ہو گئی ہے۔ 

تاہم عمران خان اپنے مطالبات پر بہت سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔ کوئی بھی اچھا سیاستدان ایسا بے لچک رویہ اختیار نہیں کرتا۔ عمران خان کا مارچ کامیاب ہو یا ناکام ہر دو صورتوں میں عمران خان کے لئے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ عمران خان کے مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کی بنیاد پر ہوگا۔

عمران خان کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر وہ نظام کو نہیں چلنے دے گا تو کل کو وہ وزیر اعظم بن گیا تو دوسرے بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ 

لالاجی کو عمران خان کی سیاسی مشکلات سے تو زیادہ دلچسپی نہیں لیکن اس سارے تماشے سے عوام کی مشکلات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بے پناہ فائدہ ہورہا ہے۔ سولین حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ حکومت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوگئی ہے اور قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی جیسے اہم شعبوں پر اپنا حق چھوڑ رہی ہے۔ ان دو اہم معاملات پر اگر سولین حکومت کا کنٹرول قائم نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اور بین الاقومی تعلقات کے حوالے سے پالیسیاں وہی رہیں گی جو پچھلے کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے اور ملکی معیشت کے بہتر ہونے کی کوئی امید رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ 

انٹرویو کے آخر میں عمران خان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جن افسران نے دھاندلی کی یا دھاندلی ہونے دی ان کو سزائیں دینا بہت ضروری ہے۔ لالاجی ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ تحریک انصاف نے اپنے ایک اتحادی قومی وطن پارٹی کے وزراء پر کرپشن کا الزام لگا کر انہیں وزارتوں سے برطرف کر دیا تھا ان کے خلاف ابھی تک کوئی مقدمے کیوں کر قائم نہیں ہو سکے؟ انہیں سزائیں کیوں نہیں ہوئیں؟ عمران خان بار بار یہ دعوٰی کرتا ہے کہ ہم نےاپنی پارٹی میں الیکشن کروائے۔ پارٹی الیکشن تو کروائے مگران انتخابات پر بھی توخود پارٹی کے لوگوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔ ان الزامات میں سے کتنوں کی تحقیقات ہوئیں اور کیا نتیجہ نکلا ؟ کیا ان انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کا نتیجہ پاکستان کے قومی انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کے نتیجے سے کسی بھی طرح مختلف ہے؟  اس وقت پارٹی کےکتنے عہدوں پر الیکشن جیت کر آنے والے لوگ فائز ہیں اور کتنے عہدوں پر عمران خان کے نامزد کردہ لوگ تشریف فرما ہیں؟ 

جب اس طرح کے سوالات کریں تو عمران خان کہتےہیں ہماری پارٹی ابھی نئی ہے، ہم سے غلطیاں ہوئیں۔ ہم آئندہ بہتر کریں گے۔ بس یہ منطق اگر پاکستان کی جمہوریت کے لئے بھی استعمال کر لیں تو مسئلہ ہی حل ہوجائے۔ پاکستان کی جمہوریت تو خان صاحب آپ کی پارٹی سے بھی عمر میں بہت چھوٹی ہے۔ ابھی ۲۰۰۸ میں ہم نے آخری ڈکٹیٹر کو بھگایا ہے۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات پہلے انتخابات تھے جن میں ملک میں کوئی فوجی وردی پہنے ہمارے سروں پر سوار نہیں تھا۔ 

اسی طرح ان انتخابات میں ایک اور دھاندلی بھی ہوئی جس کی طرف عمران خان صاحب نے کبھی اشارے کنایے میں بھی بات نہیں کی۔ وہ دھاندلی یہ تھی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن سے پہلے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے ریاست نے ایک جیسے مواقع فراہم نہیں کئے۔ عمران خان صاحب تو بڑے دھڑلے سے شہر شہر سیاسی جلسے کر رہے تھے مگر اے این پی اور پیپلز پارٹی کو چھپ چھپ کر انتخابی مہم چلانی پڑی۔اے این پی کے جلسوں پر حملے ہوئے ۔ میاں افتخار کو اپنے بیٹے کی قربانی دینی پڑی تو بشیر بلور کو اپنی جان کی۔ خان صاحب جب دو مقابل پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کی ایک جیسی آزادی نہ ہو تو اسے بھی دھاندلی کہتے ہیں۔ 

 

تبصرہ کریں